تحریر ؛ تابعدار حسین هانی
کافی عرصہ سے جنگی میدانوں کی ماہیت تبدیل ہوچکی ہے ، قدیم زمانے میں جنگ کی جیت کسی بھی ملک یا زمین پر قبضه کرنے سے ہوتی تھی لیکن اب جنگ میں جیت کا پہلا قدم فہم ، عقل ، فکر و سوچ اور دلوں کو تبدیل کرنا ہے ۔
اس کی بہترین مثال آمریکہ کا 2003 میں عراق پر حملہ کرنا ہے ، جس میں آمریکہ نے عراق کی سرزمین پر قبضہ کرنے سے پہلے تقریبا ایک سال تک میڈیا کے زریعے سے عراق پر حملہ آور ہوا ، ارادے سُست کیے اور اس کے بعد چند دنوں میں عراق کو اپنے قبضے میں لے لیا اور اُس پر حاکم ہوگیا ۔
اس طرح کی فراوان مثالیں آپ کو تاریخ میں ملیں گی ، ارادوں کی جنگ کا محکم ارتباط شناختی جنگ کے ساتھ ہے ، شناختی جنگ سے مراد ایسی جنگ هے که جس جنگ میں میدان ِجنگ معاشره کے پڑھے لکھے لوگ اور عام انسانوں کی سوچ و فکر ہے ، اس معنی میں کہ عوام اور پڑھے لکھے طبقہ کی فکری صلاحیت کو تبدیل کیا جاتا ہے ، پہلے ان کے اعتقادات پر حملہ کیا جاتا ہے اور پھر انکے رہن سہن کو تبدیل کیا جاتا ہے ، یہ جنگ ، نفسیاتی جنگ سے کئی گنا پچیده و خطرناک ہے ، اس جنگ کا بنیادی نتیجه مضاعف انسانی ہے ، یعنی فیزیکلی جنگ میں جب ایک سپاہی مارا جاتا ہے تو فقط ایک نفر کم ہوتا ہے ، جبکه شناختی جنگ میں جب ایک انسان اپنے عقائد میں مردد ہوتا ہے تو ایک نفر کم ہونے کے ساتھ ساتھ دشمن کی صف میں ایک بندہ اضافہ بھی ہوتا ہے ، اس صورت میں کسی بھی دین و ملک کا اصلی سرمایه (عوام) مورد حملہ واقع ہوتا ہے اور اپنے ملک و اعتقادات کے متعلق بد بین ہوجاتا ہے ، اگر یه جنگ طول پکڑ لے تو عوامی طبقہ کے اندر ایک شکاف پیدا ہوجاتا ہے جو بلآخر بحران کی شکل اختیار کرلیتا ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے که ارادوں کی جنگ میں اصلی ترین ہتھیار میڈیا ہے ، اور میڈیا کی مدد سے مخاطب کے ذهین کو اس طرح سے واش کیا جاتا ہے که مخاطب اس واقعه یا حادثہ کو اس نگاه سے دیکھتا ہے جس نگاہ سے میڈیا عوام کو دکھانا چاہتا ہے ، اگر میڈیا کی ذمہ داری ارادے سست کرنا ہو تو سست کرتا ہے اور اگر ارادہ مظبوط کرنا ہو تو مظبوط کرتا ہے ، البتہ یہ ہمارے ذہین میں رہے کہ میڈیا خود جنگ نہیں بلکہ ایک جنگی ہتھیار ہے اصلی جنگ ، ارادں کی جنگ ہے اور میڈیا کو اپنے دشمن کے ارادے کمزور کرنے کے لیے آلہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔
مقام معظم رہبری نے اپنے خطبات کے اندر کئی بار اس امر پر تاکید کی ہے که آج اُمت اسلامی ہوشیار رہے کیونکہ آج اس کے ساتھ ارادے کی جنگ لڑی جارہی ہے اور اُمت اسلامی کے حوصلے پست کرنے کےلیے اُن کے اراده کمزور کئے جاتے ہیں ۔
اور آج ہمارے لیے یہ بات روشن ہے کیونکه اگر ہم 57 اسلامی ممالک پر نظر دوڑائیں تو ہمیں دو قسم کے ممالک نظر آئیں گے ایک وه ممالک جن کے پاس ہر چیز هونے کے باوجود ذلیل ہیں اور کچھ ایسے ممالک ہیں جو تمام تر سختیوں اور مشکلات کے باوجود اور وسائل کم ہونے کے باوجود دنیا میں عزت مندانہ زندگی گزار رہے ہیں مثلا تمام عربی ممالک ، ترکی ، پاکستان و غیره کو اگر دیکھیں تو سب کچھ ہونے کے باوجود آمریکه اور اسرائیل کے غلام ہیں اور انکی اجازت کے بغیر اپنے ہی ملک کے اندر کوئی کام نہیں کرسکتے بلکہ چھوٹے سے چھوٹے مسئله کےلیے شیطان اکبر آمریکہ سے اجازت لینی ہوتی ہے ، کیوں ان ممالک کے ساتھ ایسا ہوا ہے ؟ اس وجہ سے کہ سب سے پہلے انکو شناختی جنگ کے اندر شکست دی گئی اور انکے اعتقادات کو ترقی کے نام پر کمزور کیا گیا ، انکو اپنا ہمفکر بنایا گیا ، اگر ساده الفاظ میں کها جائے تو انکی سوچ کو غلام بنایا گیا اور ان پر ارادے کی جنگ مسلط کی گی اور انکے ارادے سست کئے گے اور یہ تلقین دلائی گی کہ آپ کچھ نہیں کر سکتے ، اگر ہم آپ کا ساتھ چھوڑ دیں تو آپ لوگ بھوک سے مر جائیں گے آپ ڈیفالٹ ہوجائیں گے ، انکی سوچ پہلے سے غلام تھی اور ساتھ میں ارادے بھی سست پڑ گئے اور دشمن نے بغیر حمله کیا ان ممالک کو تسخیر کر لیا اور آج یہ ممالک جلتے ہوئے فلسطین کو دیکھ رہے ہیں لیکن انکے گلے خشک ہیں اور یہ اس قابل بھی نہیں ہیں کہ ایک بیان تک دے دیں ۔
دوسری طرف اسلامی ممالک میں چند انگشت شمار ملک ایسے بھی ہیں جنکے اوپر دشمن کی شناختی جنگ نے کوئی اثر نہیں کیا اور انکی سوچ کو غلام نہیں بنا سکے اور اسی طرح دشمن کی ارادوں کی جنگ نے بھی کسی قسم کا اثر نہیں کیا اور انکے ارادے کمزور نہیں کرسکے جن میں سر فہرست ایران اسلامی ہے جنکو انقلاب اسلامی سے لیکر آج دن تک مختلف جنگوں میں رکھا گیا ، جب اس حربہ نے اثر نہیں کیا پھر سخت ترین پابندیاں لگائی گئیں ، انکے سائنسدانوں کو ٹارگٹ کیا گیا ، انکے دانشمندوں کو ٹارگٹ کیا گیا ، انکے سیاستدان شہید کئے گے لیکن اس قوم نے ذلت قبول نہیں کی ، کیونکہ انکے ارادے پختہ تھے انکے اراده کمزور و سست نہیں پڑے ۔
اسی طرح فلسطین کو دیکھیں ، یمن کو دیکھیں ، لبنان کو دیکھیں ، سوریا و عراق کو دیکھیں یہ وہ ممالک ہیں جن کے پاس کچھ بھی نہیں تھا اور دشمن انکو اپنا غلام بنانا چاہتا تھا لیکن انہوں نے غلامی کی زنجیریں توڑ ڈالی ، انہوں نے سختیاں قبول کی لیکن غلامی قبول نہیں کی ، یمنیوں نے سعودیہ کے ساتھ سات سال جنگ لڑی اس وقت پوری دنیا سعودیہ کے ساتھ تھی اور یمنی مجاہد تک تنها تھے ، ان مجاہدوں کے پاس پہننے کےلیے جوتے بھی نہیں تھے لیکن اپنے دشمن کو ،ناکوں چنے چوبائے ، اور آخر کا ذلت آمیز شکست دی ، اس حوصلے و جزبہ کے پیچھے راز یہ ہے کہ انہوں نے شناختی جنگ میں اور ارادوں کی جنگ میں پورے 100 نمبر لیے ، اپنے ارادے سست نہیں ہونے دیے ، اپنے ارادے کمزور نہیں ہونے دیے اور آج پوری دنیا میں سربلند ہیں اور رهیں گے ۔ ان شاء الله
علامہ اقبال ؒ کے بقول
ارادے جن کے پخته ہوں نظر جنکی خدا پر ہو
طلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے
لہذا آج وہ قوم و ملت کامیاب ہوگی جو ارادوں کی جنگ میں کمزور نہیں پڑے گی اور اپنے ارادے سست نہیں ہونے دے گی ، جس قوم کے ارادے سست و کمزور پڑ گئے غلامی انکی قسمت بن جائے گی ۔
بنیان مرصوص اسلامی فکری مرکز
تحریر؛ تابعدار حسین ہانی
2018 میں مجھے پہلی دفعہ تحصیل علم کے لیے ایران جانا ہوا ، وہاں پر پہنچے ہوئے مجھے ایک سے دو مہینہ گزرا تھا کہ ماه مبارک مضان کے آخری جمعہ کا دن آگیا ، میں نے سنا ہوا تھا که ایران میں یوم القدس بہت اہتمام و بہترین طریقہ سے منایا جاتا ہےاور یہ بھی معلوم تھا که اس دن کو عالمی دن کے طور پر منانےکا آغاز بھی ایران سے ہوا اور اس سنت حسنه کا سہرا بھی ایران کے سر ہے ۔
لہذا میں معینہ وقت سے پہلے،جہاں سے یوم القدس کی ریلی کا آغاز ہونا تھا پہنچ گیا، آہستہ آہستہ لوگ آنے لگے،معینہ وقت پر ریلی کا آغاز ہوا اور یہ ریلی سمندر کا سماں اختیار کرگئی،ایسے لگتا تھا جیسے پورا ایران ہی گھروں سے باہر آگیا ہو ۔
بہرحال ہم اس عظیم اجتماع میں شریک ہوئے اور جمعہ کی نماز کے بعد گھر کی طرف روانہ ہوئے،جس بَس پر میں سوار ہوا ، میرے ساتھ والی سیٹ پر ایک نوجوان بچہ بیٹھا ہوا تھا جس کی عمر شاید 12 سے 14 سال کے قریب تھی ، اس نے مجھے سلام کیا اور میں نے سلام کا جواب دیا ،تھوڑی دیر بعد اسنے مجھ سے سوال کیا آپ پاکستانی ہیں ؟ میں نے جواب دیا جی ہاں میں پاکستانی ہوں ، یہاں سے اس کے اور میرے درمیان مختصر مکالمہ ہوا ، ایک موضوع جس پر چند جملےگفتگو ہوئی وہ اسرائیل کی نابودی تھی ۔
میں نے سُن رکھا تھا کہ ایرانی انقلابی جوان کافی با معرفت ہوتے ہیں اور اسکی کئی ایسی مثالیں شھداء دفاع مقدس کے بارے میں مختلف کتابوں میں پڑھنے کو ملی تھی لیکن ابھی تک کسی زنده مثال کا مشاہده نہیں ہوا تھا ۔
اسرائیل کی نابودی کےحوالے سے جو چند جملے اس جوان سے گفتگو ہوئی اُن میں سے ایک جملہ یه تھا ، مَیں نے اس جوان سے کہا کہ ماشاء اللہ ایران میں انقلاب اسلامی کے بعد سے کافی بیداری آچکی ہے ، یوم القدس کا اتنا بڑا اجتماع میں نے کہیں پر نہیں دیکھا ،اس بیداری سے ظاہر ہوتا ہے اسرائیل کی نابودی نزدیک ہے کیونکہ قومیں آہسته آہسته بیدار ہورہی ہیں ۔
تو اس جوان نے میری طرف دیکھا اور کہا کہ اسرائیل کو تو ایک دن ضرور نابود ہونا ہے ، اصلا یہ امکان نهیں ہے کہ اسرائیل نابود نہ ہو ، مہم یہ ہے کہ آخر کس کے ہاتھوں سے نابود ہوگا ؟ اس کی نابودی میں همارا کتنا حصہ ہوگا ؟کہیں ایسا نہ ہو کہ اسرائیل نابود ہوجائے اور ہمارا اس جہاد فی سبیل الله میں کس حوالے سے کوئی حصہ نہ ہو ، یہ خطرناک ہے ۔
سچ پوچھیں تو اُس وقت میں اس جوان کے یہ جملے سُن کر حیران ہوگیا کہ اس عمر میں اتنی معرفت ؟
یہ واقعہ اس لیے نقل کیا ہے کیونکه آج اسرائیل کی نابودی ان شاء الله نزدیک ہے ، لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ کس کے ہاتھوں سے ؟ ہمارا کتنا حصہ ہے اس ظلم کے خلاف ؟ ہم کہاں پر کھڑے ہیں ؟ کہیں تاریخ میں ہمیں یہ تو نہیں کہا جائے گا کہ اتنے زیاده مسلمانوں کے ہوتے ہوئے ، اسرائیل نے کیسے فلسطینوں پر ظلم کیا؟ جیسے آج ہم کہتے ہیں اتنے صحابہ کے ہوتے ہوئے نواسہ رسول الله ﷺ کو کربلا میں کیسے شہید کیا گیا ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہا جائے گا کہ فلسطین کو فقط ایرانی ، لبنانی و یمنیوں نے آزاد کرایا تھا ،پس اُس وقت 25 کڑوڑ پاکستانی کیا کر رهے تھے؟
اُس وقت ہم کیا کہیں گے ؟ یہ کہیں گے کہ پاکستانی کرکٹ کھیل رہے تھے یا پپ جی کھیل رہے تھے یا سوشل میڈیا کی لہویات میں مشغول تھے ۔
ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اسرائیل نے ہر صورت میں نابود ہونا ہے ، کیونکہ یہ ایک جنایتکار گینگ ہے جن کے پاس اس ظلم کی نہ کسی دین سے مشروعیت ہے حتی یہودیت سے، نہ کسی عُرف سے مشروعیت ہے اور نہ کسی بھی معاشرہ سے مقبولیت ہے ، اسرائیل کی مشکل ، مشکل وجودی ہے ، اسکا وجود سرے سے مورد اشکال ہے لہذا جس کا وجود قابل اثبات نہ ہو اسکو مٹانا و نابود کرنا کوئی مشکل امر نہیں ہے ، سید مقاومت کے بقول ، اسرائیل مکڑی کے جال سے بھی کمزور ہے ۔
لیکن قابل توجہ یہ امر ہے کہ آج کے فتح خیبر میں ہمارا کتنا کردار ہے ؟ آیا اسرائیل کے خلاف ثقافتی جنگ میں ہمارا کتنا سہم ہے ؟ سیاسی جنگ میں ہمارا کتنا سہم ہے؟ اقتصادی جنگ میں ہمارا کتنا حصہ؟ میڈیا کی جنگ میں ہمارا کتنا حصہ ہے؟ رہبر معظم کے فرمان پر ہم کتنا جہاد تبیین کر رہے ہیں؟
یہ وہ نکتہ ہے کہ جس کی طرف ہمیں توجہ کرنے کی ضرورت ہے ،تنہائی میں ہمیں خود سے یہ سوال کرنے چاہیے اور اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے
بنیان مرصوص اسلامی فکری مرکز
21 رمضان المبارک کی مجلس
خطابت : تابعدار حسین
جوخود کو شیعه علی ؑ کہتا ہے اُس کا یہ فریضه ہے که و شخصیت امیرالمومنینؑ کی معرفت حاصل کرئے ، اس امر میں غفلت نہ کرے کیونکہ اس امر میں غفلت یعنی درحقیقت فیض معرفت و آگاهی سے محرومیت هے ، جس کے مقام کے آگے اجنبی بھی سر تسلیم ہیں مثلا فخر رازی کو دیکھیں جو که ایک دانشمند اہل سنت ہیں اور امام مشککین ہیں ، سورہ فاتحہ کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ بلآخر ہیں معلوم نہیں ہوا کہ رسول اللهﷺ نماز میں بسم الله الرحمن کو بلند آواز سے پڑھتے تھے یا آہسته ؟ اس مسئلہ میں ہم علی ابن ابی طالب ؑ سے تمسک کرتے ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا العلی مع الحق و الحق مع العلی ، لہذا نماز میں بسم الله الرحمن الرحیم کو نماز میں بلند آواز سے پڑھنا چاہیے ۔
جب شیعه کا معنی تابع و پیروں علیؑ هے تو پیروی معرفت میں گروی ہے ، جب جس کی پیروی کرنی ہے اگر اس کی معرفت نہ ہو تو کیسے انکی پیروی کی جا سکتی ہے پیروی اس وقت متحقق ہوتی ہے جب معرفت ہو ۔
اور یہ بھی مسلمات میں سے ہے که معرفت ذات امیر المومنینؑ ، امام معصوم ؑ کے علاوه کسی کے بس کی بات نهیں ،لہذا ہم امام معصوم سے تمسک کریں گے تاکه اپنی وسع و طاقت کے مطابق معرفت امام المتقین کو حاصل کریں ۔
جب امام ھادی ؑ کو معتصم عباسی نے مدینہ سے سامرہ کی طرف بلایا تو امامؑ جب نجف اشرف میں پہنچے تو قبر مطھر امیر المومینؑ پر ایک زیارت نامہ انشاء کیا جوکه زیارت غدیریہ کے نام پر مشہور ہےجس میں شخصیت امیرالمومنینؑ کے چند پہلوں کو بیان فرمایا ہے ۔
امام ھادیؑ فرماتے ہیں : السَّلامُ عَلَیْکَ یَا وَلِیَّ اللّٰهِ، أَنْتَ أَوَّلُ مَظْلُومٍ، وَأَوَّلُ مَنْ غُصِبَ حَقُّهُ، صَبَرْتَ وَاحْتَسَبْتَ حَتَّىٰ أَتَاکَ الْیَقِینُ، فَأَشْهَدُ أَنَّکَ لَقِیتَ اللّٰهَ وَأَنْتَ شَهِیدٌ
امام ھادیؑ فرماتے ہیں میرا سلام ہو آپ پر ائے ولی خدا ، آپ پہلے مظلوم ہیں ، اور پہلے وه جن کا حق غصب کیا گیا آپ نے صبر کیا اور اس کا احتساب خدا پر چھوڑ دیا یہاں تک کہ آپ شھید ہوگے اور میں گواھی دیتا ہوں کہ آپ حالت شھادت میں خدا سے ملاقات کی ہے ۔
یہاں پر امامؑ سلام نے امیر المومنینؑ کی پہلی وصف اولین مظلوم بیان کیا ہے ، واقعا عالم میں مولا امیرؑ پہلے مظلوم ہیں جنہوں نے اپنی مظلومیت کو بہت سخت تعبیرات کے ساتھ بیان ہے ۔
آپ ذره مظلومیت امیرالمومنینؑ پر توجہ فرمائیں ، ایک دن آپؑ گھر تشریف لاتے ہیں تو بنت رسول الله رو رہی ہوتی ہیں آپؑ پوچھتے ہیں بنت رسول الله کیا ہوا ہے کہ آپ علیؑ کے ہوتے رو رہی ہیں تو آپ فرماتی ہیں مولا میں نے سنا ہے مدینہ کے لوگ آپ کو سلام نہیں کرتے ، امامؑ نے فرمایا ماجرہ فقط یہاں تک نہیں ہے بلکہ میں سلام کرتا ہو مدینہ کے لوگ مجھے سلام کا جواب نہیں دیتے ، یہ ہے مظلومیت امیرالمومنینؑ جو اسدالله ہیں جو یعسوب الدین ہیں جو مومن و فاسق کے درمیان فرق کرنے کا معیار ہیں اور رحلت رسول اللهﷺ کے بعد اس کو سلام کا جواب نہیں دیتے یہ ہے مظلومیت امیرالمومنینؑ ، ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اس مظلومیت کے پیچھے کیا راز ہے اور کیا علل و اسباب ہیں کہ رحلت رسول الله ﷺ کے فورا بعد اتنے مظالم امیرالمومنینؑ پر ڈھاے گیے ، یہاں پر ہم اُن علل و اسباب میں سے فقط چند کو ذکر کریں گے ۔
1 ۔ تنھائی
پہلی علت یہ بیان ہوئی ہے کہ امیرالمونینؑ کو رحلت رسول الله ﷺ کے فورا بعد اُمت نے تنہا چھوڑ دیا امیرالمومنینؑ کے ساتھ فقط اپنے اہل بیت ره گئے اس کو خود امیرالمومنینؑ نے نہج البلاغہ کے اندر بیان کیا ہے ایک اور حدیث میں تنہائی امیرالمومنینؑ کو اس طرح سے بیان کیا گیا ہے
عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ عَلَیْهِ اَلسَّلاَمُ قَالَ: اِرْتَدَّ اَلنَّاسُ بَعْدَ اَلنَّبِیِّ إِلاَّ ثَلاَثَةَ نَفَرٍ: اَلْمِقْدَادُ بْنُ اَلْأَسْوَدِ وَ أَبُو ذَرٍّ اَلْغِفَارِیُّ وَ سَلْمَانُ اَلْفَارِسِیُّ ، ثُمَّ إِنَّ اَلنَّاسَ عَرَفُوا وَ لَحِقُوا بَعْدُ
رسول الله ﷺ کے بعد لوگ مرتد ہوگے مگر تین نفر مقداد ، ابوذر و سلمان فارسی ، البتہ بعض روایات میں چار نفر و بعض میں پانچ نفر بھی ذکر ہیں جو چیز مسلم ہے دس نفر سے کم تھے ، اور یہاں پر مرتد سے مراد مرتد فقہی نہیں ہے بلکہ یہاں پر ایک خاص معنی ہے اور یہ ہے لوگ ولایت امیرالمومنینؑ سے منہ موڑ لیا اور سقیفہ کے پچھے چل پڑے اور ولایت علیؑ کہ جس اعلان رسول الله ﷺ نے خم غدیر کے مقام پر کیا لوگوں نے اس سے منہ موڑ لیا اور علیؑ کو تنہا چھوڑ دیا ۔
2 ۔ عدالت
امیرالمومنینؑ کو خلافت ظاھری ملی تو امامؑ نے اپنا طریقہ حکومت میں عدالت کو مرکزیت دی اور اسکو اس طرح سے بیان فرمایا جو باعث مظللومیت امیرالمومنینؑ بنی ،
فَاَنتُم عِبادُ اللّهِ وَ المالُ مالُ اللّهِ یُقَسِّمُ بَینَهُم بِالسَّویه لا فَضلَ فیه لِأحَدٍ عَلی أحَد وَ لِلمُّتَّقینَ عِند اللّهِ غَدا أحسَنُ الجَزآءَ و اَفضَلُ الثّواب ، لَم یَجعَلِ اللّه ُ الدُّنیا للمُتَّقینَ أجرا و لا ثَوابا و ما عِندَ اللّه ِ خَیرٌ للأبرارِ .
آپ بندگان خدا ہیں اور بیت المال الله کا مال ہے اور میں اس کو آپ کے درمیان مساوی تقسیم کروں گا اور اس میں کسی کو کسی دوسرے پر فضیلت نہیں ہے اور متقین کےلیے آخرت میں الله کے ہاں ان کےلیے بہتریں جزاء اور بافضیلت ثواب ہے ،اللہ نے متقین کے لیے دنیا میں نہ کوئی جزا قرار دی ہے اور نہ ثواب اور وه جو الله کے پاس آخرت میں ہے وہی بہتر و خیر ہے ۔
جب تقریر امیرالمومنینؑ نے کی تو بعضوں کو معلوم ہو گیا کہ پہلے کی طرح اب ہم بیت المال سے مال نہیں بٹور سکیں گے لہذا مخالفت پر اتر آئے اور حتیٰ کہ جنگیں لڑنے تک گریز نہیں کیا ، دوسرے دن طلحة و زبیر آئے اور یہ کہا : ان طلحة و الزبیر أتیا علیا ً بعد ما بایعاه بأیام فقالا:
یا امیرالمؤمنین قد عرفت شدة مؤنة المدینه و کثره عیالنا و ان عطاءنا لایسعنا ، ہمیں جو بیت المال سے حصہ ملتا ہے وه کم ہے اور ہمارے عیال بھی زیاده ہیں اور اس سے ہمارا گزارا نہیں ہوتا لہذا ہمیں بیت المال سے زیاده حصہ دیں تو امیرالمومنینؑ نے فرمایا : فقال: اطلبا الی الناس فان اجمعوا علی ان یعطوکما شیئا ً من حقوقهم فعلت ، آپ جاکرلوگوں سے مانگیں اور اُن سے کہیں کہ ہمیں اپنا حق دے دیں اگر وه دے دیں تو مجھے کوئی مشکل نہیں ہے ، تو پھر ان دونوں نے کہا :قالا: لمن نکن لنطلب ذلک الی الناس و لم یکونوا یفعلوا لوطلبنا الیهم! ، یہ ہم نہیں کہہ سکتے اور اگر ہم کہیں بھی سہی تو لوگ نہیں مانے گے تو اس وقت امیرالمومنینؑ نے فرمایا : قال: فأنا و الله احری ان لاافعل فانصرفا عنه ، خدا کی قسم میں سزاوار تر ہوں کے یہ کام نہ کروں ، جب آپ خود کہہ رہے ہیں کہ لوگ نہیں مانیں گے تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ لوگوں کا مال آپ لوگوں کو دے دے ، پھر اس قاطعیت و عدالت کے نتیجہ میں جنگ جمل برپا ہوئی ہے ۔
یہ ہیں وه علل و اسباب کہ جس کی وجہ امیرالمومنینؑ اتنے مظلوم ہوے کہ اول مظلوم عالم کہلاے ، اسی طرح اس علت کا ادامہ اور باقی علل ان شاء الله آنے والے جلسات کے اندر زیر بحث لائیں گے ۔
تحریر ؛ تابعدار حسین هانی
چکیده (خلاصہ)
اس مقالہ میں سب سے پہلے ملکی موجودہ حالات کے تناظر میں مہم مسائل (سیاسی ناپائیداری و تفرقہ ) کو بیان کیاگیا ہے اسی مطلب کے ضمن میں سیاسی ناپائیداری کے مفردات کو علمی بنیادوں پر بررسی کیا گیا جیسے سیاست و ناپائیداری کا لغوی و اصطلاحی معنی ، سیاست کی اقسام وغیرہ اور اسکے بعد سیاسی ناپائیداری و تفرقہ کی وجہ سے ملک میں اُٹھنے والے بحران ، اور اسی طرح پاکستان میں موجود مختلف دو سیاسی روشیں اور اُنکی بررسی اور آخر میں ایک راہ حل بیان کیا گیا هے اس معنی میں کہ تشیع کو موجودہ حالات میں کس سیاسی روش سے استفادہ کرنا چاہیے ۔
موجودہ ملکی حالات ، سیاسی ناپائیداری ، تفرقہ ، تشیع ، بحران ، خواص کی ذمہ داری
سیاسی مسائل کا تجزیہ وتحلیل اور اُن کو بیان کرنا کافی دشوار کام ہے چونکہ بیشتر لکھاری سیاسی مسائل کو بیان کرنے میں لغزش کا شکار ہو جاتے ہیں ، درست نتیجہ نکالنا اور حقائق تک پہنچنا انکے لیے کافی دشوار ہو تا ہے ، اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ غالبا ہر تجزیہ نگار نے پہلے سے اپنا ایک سیاسی نظریہ تشکیل دیا ہوتا ہے ، پھر اس تشکیل شدہ نظریہ کی بنیاد پر مختلف موضوعات کو زیر بحث لاتے ہیں جیسے اگر موجودہ صورتحال میں تمام سکالر ، کالم نگار و تجزیہ نگار کے بیانات پر توجہ کیجاے تو روزِ روشن کی طرح نظر آئے گا کہ بیشتر لکھاری یا تو وہ ہیں جو کسی گروہ و جماعت کی تائید کر رہے ہیں یا پھر وہ ہیں جو کسی گروہ و جماعت کی مذمت کررہے ہیں یعنی غالبا پہلے سے موجود نظریہ کی بنیاد پر موجودہ حالات کا تجزیہ کرتے ہیں اور یہی وہ نقطہ ہے جس کی وجہ سے تجزیہ نگار و تحلیل گر انحراف کا شکار ہو جاتا ہے اور اُس نتیجہ تک پہنچ جاتا ہے جو پہلے سے مشخص ہوتا ہے جیسےعلم کلام میں متکلم جب بحث کا آغاز کرتا ہے تو اس کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ حق تک پہنچے بلکہ اس کا ہم و غم یہ ہوتا ہے کہ ہر روش سے استفادہ کرے تاکہ اس نے جو عقیدہ اپنایا ہے اسی کو حق ثابت کرسکے اور اسکا دفاع کرے اور اسی طرح چونکہ سیاسی مسائل میں بھی ایک نظریہ و عقیدہ ہوتا ہے لہذا اس میں بھی یہ مشکل پیش آتی ہے ، اسی لیے جب ایک محقق کی خصوصیات بیان کی جاتی ہیں تو سب سے اہم خصوصیت (صداقت) کو بیان کیا جاتا ہے کہ ایک محقق کو صادق ہونا چاہیے یعنی جب بھی کسی موضوع کے متعلق تحقیق کرنا چاہے تو سب سے پہلے تعصب کی عینک کو اتارے اور ایک منصف انسان و حق کے متلاشی کے طور پر اس میدان میں وارد ہو ، تاکہ حق و حقیقت تک رسائی حاصل کرے ، لہذا اسی غرض کی خاطر و پاکستان کے موجودہ حالات کو درست سمجھنے ، انکے عوامل اور راہ حل تک پہنچنے کے لیے ہم نے اس مقالہ میں اپنی بھرپور کوشش کی ہے کہ پاکستان کے موجودہ مسائل کو بغیر کسی پِیش فرض کے تجزیہ و تحلیل کریں اور درست نتائیج تک رسائی حاصل کریں تاکہ ہمیں اس بحث سے ثمرہ علمی کے ساتھ ساتھ ثمرہ عملی بھی حاصل ہو ۔
لازم ہے کہ سب سے پہلے مختصر و مہم موجودہ ملکی حالات کو بیان کریں ، موجودہ ملکی حالات میں سب سے مہم موضوع سیاسی ناپائیداری ہے باقی تمام موجودہ مسائل سیاسی ناپائیداری کے بطن سے پیدا ہوئے ہیں اور یہ تمام مسائل ایک لحاظ سے فرعی مسائل ہیں درحالیکہ یہی فرعی مسائل اپنی جگہ پر بہت مہم و اہم ہیں اور انکو آگے اسی مقالہ میں زیر بحث لائیں گے ، لیکن یہاں پر ہم سب سے پہلے پاکستان کی موجودہ سیاسی ناپائیداری کو زیر بحث لاتےہیں ۔
پاکستان سیاسی طور پر کاملا بحرانی حالت میں ہے ، کئی دہائیوں سے حرج و مرج کا شکار ہے اورکسی پالیسی و منصوبہ بندی کے بغیر چل رہا ہے اس مسئلہ کی توضیح کے لیے ہمیں بطور مقدمہ سیاسی ناپائیداری کے مفردات کی توضیح دینی ہوگئی تاکہ مسئلہ کی جڑ تک پہنچ سکیں ، مثلا سیاست سے کیا ہے ؟ کلمہ سیاست کتنے معنی میں استعمال ہوا ہے؟ لغت میں سیاست سے کیا مراد ہے؟ سیاست کا اصطلاحی معنی کیا ہے ؟ ناپائیداری کا لغوی و اصطلاحی معنی کیا ہے ؟ اور اس جیسے دیگر بنیادی سوالات اور انکے جوابات
آج پوری دنیا میں سیاست کی اصطلاح مختلف معنوں میں استعمال هوتی هے اور یه تمام معانی عامیانه و تحریف شده هیں اُن معانی میں سے ایک معنی جو پوری دنیا میں معروف و بدنام ہے، وہ معنی یہ ہے کہ بیشتر لوگ سیاست کو شیطنت کے معنی میں لیتے ہیں یعنی سیاست کو شیطنت کے مترادف سمجھتے ہیں ، اسی لیے عام لوگ عموما جب ایک دوسرے کو سرزنش کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ مَیں آپ کی سیاست سے واقف ہوں ، آپ کی سیاست میں آنے والا نہیں ہوں میرے ساتھ سیاست نہ کرو ، دوسرے لفظوں میں یعنی شیطنت نہ کرو ، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عام لوگ سیاست کے نام پر جو دیکھ رہے ہیں وہ یہی شیطانی سیاست ہے ، آج پوری دنیا میں اگر نگاہ کریں تو اکثر ممالک اپنی عوام کے ساتھ یہی سیاست کر رہے ہیں چاہے وہ عربی ممالک ہیں یا غربی سب میں یہی شیطانی سیاست ہورہی ہے ، لہذا جب بھی سیاست کا نام آتا ہے تو لوگوں کے ذہن میں یہی شیطانی سیاست آتی ہے اور عُرف میں اس کا تصور ہی قبیح ہے ، اسی طرح ہمارے پاکستانی معاشرہ میں اس معنی کے ساتھ ساتھ ایک اور معنی بھی ذہنوں میں خطور کرتا ہے مثلا جونهی لفظ سیاست آتا هے فورا ذهن میں الیکشن ، ووٹ مانگنا ، الیکشن لڑنا اور الیکشن جیتنے کی روشیں وغیره آتے هیں اور اسی وجه سے لوگ سمجھتے هیں که ایک سیاسی انسان وہ ہے ، جو الیکشن میں حصه لیتا هو ، الیکشن لڑتا هو ، ووٹ مانگتا هو ، جھوٹ بولتا هو ، عوام کو فریب دیتا هو ،کرپشن کرتا هو ، اُس کے بچه بیرون ممالک میں رهتے هوں ، لوگوں کو بے وقوف بنانا اُس کو آتا هو ، اپنے ذاتی مفادات کو اجتماعی مفادات پر ترجیح دیتا هو ،مجرموں کو جیل سے چھوڑاتا هو ، بے گناهوں کو سزاء موت کرواتا هو ، دین کی الف باء سے واقف نه هو ، دهشتگردوں کی امداد کرتا هو ، دوسرے ممالک سے قرضه لینے میں ماهر هو اور اس جیسے باقی سیکڑوں اوصاف کا حامل هو تو یه ایک حقیقی سیاستدان هے اور اس کو پاکستان کے اندر سیاسی اصطلاح میں ایک منجھا هوا سیاستدان کہتے هیں ، اگر هم اس مطلب کو ایک جمله میں قلم بند کرنا چاهیں تو کهه سکتے هیں که همارے معاشرے میں دو اصطلاحیں ( سیاست و الیکشن ) مترادف هیں ، درحالیکه علمی نقطه نگاه سے ( سیاست و الیکشن ) کاملا ایک دوسرے سے جدا اصطلاحیں هیں اور ایسا نهیں هے که هر الیکشن لڑنے والا سیاسی هو اور جو الیکشن نہیں لڑتا وه سیاسی نهیں هے اس مطلب کو مختصر وضاحت کی ضرورت هے ۔
1 ۔ سیاست لغت میں رعیت پر حکمرنی کرنا ، امور مملکت کو اداره کرنا ، حکومت کرنا ، ریاست کرنا
(معین،1353،ص1075)
2 ۔ امور مملکت کو اداره کرنا ، اندرونی و بیرونی امور پر نظارت کرنا ، رعیت داری ، خلق کی اصلاح
(عمید، 1381،ج1 ، ص 1256)
3 ۔ ریاست کرنا، حکمرانی ، مصلحت ، سزا دینا
(لسان العرب، واژه «سوس» ج۶، ص۱۰۸) ،(العین، واژه «سوس» ج۷، ص۳۳۶) ،(لغت نامه دهخدا) ، (مرآة العقول ج۳، ص۱۵۰)
سیاست کے اصطلاحی معانی بهت زیاده بیان هوئے هیں اور اهل نظر فرماتے هیں که ابھی تک اس کلمه کے 200 کےقریب معانی بیان هوے هیں لیکن هم یهاں پر چند مهم معنی کو بیان کریں گے ۔
1 ۔ کچھ مغربی دانشور سیاست کا معنی (قدرت و طاقت کا علم) بیان کرتے هیں اور ان کے نزدیک سیاست ایک علم ہے جو انسان کو بتاتا هے که کیسے طاقت و قدرت حاصل کرنی هے۔ (اصول علم سیاست، موریس دوورژه، ترجمه دکتر ابوالفضل قاضی، صص 18-17)
2 ۔ کچھ اور مغربی دانشور آئے اور انهوں نے پهلے نظریه کو معتدل کیا اور کها سیاست یعنی حکومت کرنے کا علم اور یه علم حکومت کی رفتار کو برسی کرتا هے ۔ (نظریههای دولت، اندرووینست، ترجمه حسین بشری، ص 20)
اسی طرح سیاست کی اور بھی بهت ساری تعریفیں کی گئی هیں لیکن هم اس مختصر سی تحریر میں نقل کرنے سے قاصر هیں ، اب هم یهاں پر ایک مهم نظر کو بیان کرتے هیں جو موجوده دور میں تمام مفکرین اسلام کے نزدیک قابل قبول هے اور وه هے
سیاست کا معنی امام خمینی (ره) کے نزدیک
اس سیاست کی توضیح امام راحل (ره) نےاُس وقت بیان کی که جب شاه کے ایک اعلٰی افسر نے امام خمینی (ره) سے کها که سیاست یعنی جھوٹ ، فریب ، دھوکه و مکاری هے آپ اس کو همارے لیے چھوڑ دیں تو امام خمینی (ره) نے فرمایا یه آپکی سیاست هے اور اس سیاست کا اسلام کے ساتھ کو تعلق نهیں هے یه سیاست شیطانی هے ۔ (امام خمینی، 1391، ج 13، ص 431)
امام خمینی (ره) فرماتے هیں ؛ فرض کریں ایک انسان آئے اور صیح سیاست ( مادی) کو اجراء کرئے ،اُس کی سیاست شیطانی نه هو اگر اُس کی سیاست صیح هو پھر بھی انسان کے ایک پهلوکو هدایت کرتی هے اور وه پهلو حیوانی هے جبکه انسان کا فقط مادی پهلو نهیں هے بلکه اس سے بڑا پهلو (معنوی پهلو) هے لهذا یه ایک ناقص سیاست هے ۔ (امام خمینی،1391،ج 13،ص 432)
سیاست یعنی معاشره و افراد کے (جس چیز میں مصالح هیں) اُن مصالح کی طرف راسته دکھانا اور هدایت کرنا ،اور یه روایات میں رسول الله (ص) کے لیے ثابت هے اور یه وهی چیز هے که جس کو قرآن کریم نے صراط مستقیم کها هے اور هم نماز میں کهتے هیں ( اھدنا الصراط المستقیم ) هم خدا وند کریم سے چاهتے هیں که ملت ، معاشره و افراد کو راه مستقیم پر چلاے که جو یهاں سے شروع هو اور آخرت پر ختم هو ۔۔۔ یه سیاست انبیاء و اولیاء کے ساتھ خاص هے ، انبیاء کی مسؤلیت سیاست هے ۔
امام خمینی،1391،ج 13،ص 432
حاصل مطلب
لہذا اگر ہم سیاست کی تمام تعاریف (سیاست شیطانی کے علاوہ) میں توجہ کریں تو ہمیں ایک چیز مشترک نظر آے گی اور وہ یہ ہے کہ معاشرہ و اجتماع کو چلانے کی روشیں اور طریقے ، دوسرے لفظوں میں سیاست یعنی کس طرح انسانیت کو سعادت کی طرف ہدایت کرنا ہے ؟ اور معاشرہ کو کس طرح مدیریت کرنا ہے ؟ تاکہ مصالح انسانی حاصل ہوں ، یہاں تک مادی و اسلامی سیاست مشترک ہے لیکن ان دو کے درمیان جدائی انسانی مصالح کی تشخیص کے وقت ہوتی ہے ، مادی سیاست کرنے والوں کے نزدیک انسان فقط حیوانی پہلو رکھتا ہے اوراس پہلو کی ضروریات کو پورا کیا جائے اور اس پہلو کی ضروریات کی تشخیص خود انسان دے سکتا ہے اور اس پہلو میں دین کی کوئی دخالت نہیں ہے ، جبکہ اسلامی سیاست میں انسان مادی پہلو کے علاوہ معنوی پہلو بھی رکھتا ہے اور انسان کا اصلی پہلو ، یہی معنوی پہلو ہے ، انسان کا مادی پہلو معنوی پہلو کی تکمیل کرتا ہے اور دین اسلام انسان کے دونوں پہلووں کو کمال تک پہنچانے کے لیے ہے ، انسان کی سعادتِ دنیوی و آخروی تک پہنچنے کےلیے جس راہ و روش کی ضرورت ہے اسکو دین اسلام نے بیان کیا ہے اور تمام انبیاء کرام اسی مقصد کے لیے مبعوث ہوئے ہیں اور یہی اسلامی و الہی سیاست ہے ، پس اس تعریف کی روشنی میں سیاست انبیاء کی مسؤلیت هے اور هر نبیؑ نے اپنی اُمت کے اندر اس فریضه کو ادا کیا ہے انبیاء کے بعد ائمه علیه السلام نے اُمت کی رهبری سنبھالی اور اُمت کی هدایت کے لیے تمام مشکلات کو برداشت کیا ، البته یاد رهے که بیشتر انبیاء و أئمهؑ کے پاس حکومت نهیں تھی لیکن پھر بھی اُمت کی صراط مسقیم کی طرف هدایت کی ہے دوسرے لفظوں میں الہی سیاست کو انجام دیا ہے ، لهذا سیاست فقط الیکشن لڑنے کا نام نهیں هے بلکه اُمت اسلامی کی رهبری کرنے کا نام هے ، اُمت کو صراط مستقیم کی طرف هدایت کرنے کا نام هے اور یهی کام امام خمینی (ره) نے انجام دیا ہے ، امام خمینی (ره) نے جب اُمت کی رهبری سنبھالی اُس وقت انقلاب نهیں آیا تھا بلکه انقلاب کے دور دور تک کوئی آثار نہیں تھے اور ایک ظالم و جابر شاه ملک پر حاکم تھا اس سختی کے دور میں امام خمینی (ره) نے سیاست کا آغاز کیا اور وه بھی اسلامی سیاست ، جو چوده صدیوں سے مهجور تھی ، امام راحل (ره) نے آکر اُس ائمهؑ کی سیاست کو زنده کیا اور تمام تر سختیوں کو برداشت کر کے عَلم ولایت کو دنیا کے تمام جابروں کے مد مقابل بلند کیا ، لہذا سیاست کا حقیقی معنی یهی هے اور اس کا انجام دینے والا علوی سیاستدان هے ، پس سیاستدان وه شخص هے جسکے ہاتھ میں معاشره کی نبض هو ، جو معاشره کو چلانے کی روشوں سے واقف هو ، جو اُمت کو صراط مستقیم کی طرف راهنمائی کر سکتا هو ، چونکه امام خمینی (ره) کے نزدیک سیاست یعنی صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرنا هے اور یه انبیاء و اولیاء علیه السلام کا فریضه هے ، اور یهی فریضه پرده غیبت میں علماء کرام کا هے کیونکه حدیث میں آیا هے۔ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِیَاء
(الکافی، شیخ کلینی، ج ۱، ص ۳۲ ؛ بصائر الدرجات، محمد بن حسن صفار، ص ۱۰ ؛ کنز العمال، متقی هندی، ج ۱۰، ص ۱۴۶؛ بحار الانوار، علامه مجلسی، ج ۲، ص ۹۲ ؛)
خلاصہ کلام ! سیاست کو الیکشن کا مترادف تصور کرنا ، بهت بڑی غلطی هے اور صیح معنی ، معاشره و افراد کی تدبیر ، معاشره کو چلانے کی روشیں اور طریقے ، جو انسان کو سعادت ابدی تک لے جائیں ، سیاست کهلاتی هے اور جو انسان اس راه و روش سے آگاه هو اُس کو سیاستدان کهتے هیں ، اور همارے پاس اِن روشوں و طُرق و راه کا بهترین منبع کتاب خدا و سیرت انبیاء و أئمهؑ هے اور جو عالم اس سیرت و طرز پر معاشره کی هدایت کرتا هے وه در حقیقت سیاست اسلامی انجام دے رها هے اگرچہ اسکا الیکشن کے ساتھ دور دور تک واسطہ نہ ہو اور یهی وراثت انبیاء هے ۔
لغت میں ناپائیداری ،بے ثباتی ( جس چیز میں ٹھراؤ نہ ہو) ، ہمیشہ درحال تغییر و تبدیل ، متذلل ، فانی کے معنی میں ہے
سیاسی ناپائیداری کا اصطلاحی معنی
اصطلاح میں سیاسی ناپائیداری سے مراد یہ ہے کہ کسی بھی ملک کی سیاست حرج و مرج کا شکار ہو ، ملک کسی مستقل پالیسی پر مدیریت نہ ہو رہا ہو بلکہ ملک کی تقدیر بیرونی دشمن و اندرونی خیانت کاروں کے ہاتھ میں ہو اور ملک کے اندر سیاسی حریفوں کے درمیان فقط اقتدار کی جنگ ہو اگرچہ اس اقتدار کی جنگ کے نتیجہ میں ملک تباہ ہی کیوں نہ ہو جاے ، اب ان مفردات کی مفصل توضیح کے بعد آتے ہیں پاکستانی موجودہ ناپائیدار سیاست کی طرف ، ہم نے شروع میں پاکستان کے موجودہ تمام مسائل کی جڑ سیاسی ناپائیداری کو قرار دیا ہے اول تو معنی کےلحاظ سے پاکستان میں موجودہ سیاست اسلامی تو اصلا ، مادی سیاست بھی نہیں ہے کیونکہ ہر باضمیرانسان جانتا ہے کہ پاکستان میں موجودہ سیاست کی بنیاد جھوٹ،فریب ،لوگوں کی بے شعوری سے فائدہ اُٹھانا ،شخصی مفادات کو اجتماعی مفادات پر ترجیح دینا، ظلم و فساد ،بے انصافی وغیرہ پرہےاور تمام موجودہ سیاسی پارٹیوں کا ہم و غم اقتدار تک پہنچنا ہے چاہے وہ کسی طریقے سے بھی ہو ، ظلم سے ہو یا پراپگنڈہ کے زریعے سے ، وہ دین کے زریعے سے ہو یا بے دینی کے زریعےسے ، وہ ملت و قوم کے درمیان تفرقہ سے حاصل ہو یا خیانت کے زریعے سے ، اور اگر اسی دوران کوئی پاکستان کے ساتھ مخلص سیاسی گروہ یا جماعت ہے بھی صیح تو اُن کے ہاتھ میں نہ تو قدرت ہے اور نہ ہی اختیار اور نہ ہی اُن کا وجود موجودہ صورتحال پر تاثیرگزار ہے ۔
سیاسی ناپائیداری کے بطن سے نکلنے والا ایک مہم مسئلہ قوم و ملت کے درمیان اختلاف و تفرقہ ہے ،اس وقت پاکستان تفرقہ کی آگ میں بُری طرح سے جل رہا ہے ، قوم کے درمیان تفرقہ و اختلاف ایک دہشتگردی کی شکل اختیار کرچکا ہے ، چاہے وہ مذاہب و مسالک کے درمیان ہے یا سیاسی گروہوں کے درمیان، ایک مذہب کا فرد دوسرے مذہب کے فرد کو قبول نہیں کرتا اسی طرح ایک سیاسی جماعت کا فرد دوسری سیاسی جماعت کے فرد کو قبول نہیں کرتا ، اور یہ کام باقاعدہ ایک پالیسی کے تحت دشمن عناصر نے شروع کیا اور اپنے مقصد میں کامیابی کےلیے بعض لالچی ،اقتدار کی ہوس رکھنے والے افراد اور قوم و ملت کے بزدل افراد کو استعمال کیا ہے اور اَسی (80) کی دہائی سے لیکر آج دن تک ملک تفرقہ کی آگ میں جل رہا ہے،موجودہ حالات میں یہ دو مسئلہ(سیاسی ناپائیداری و تفرقہ ) بہت اہمت کے حامل ہیں اور باقی تمام مسائل فرعی ہیں ، اگر ان دو مسائلوں پر توجہ دی جائے اور ان کا راہ حل تلاش کیا جائے تو باقی تمام مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے ، اب موجودہ حالات سے اُٹھنے والے بحران یا چیلنجز کو زیر بحث لاتے ہیں ۔
ہے (crisis)و انگلش زبان میں بحران کا مترادف (krisis)لاطینی زبان میں بحران کا مترادف
سادہ الفاظ میں بحران خطرناک وقت ، مشکل وقت یا پریشانی کے وقت کو کہتے ہیں ۔
بعضوں نے کہا ہے کہ بحران کی اصطلاح کو اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب کوئی معاشرہ تعادل ، نظم اور معمول کی حالت سے خارج ہو جائے اور حرج و مرج نظم کی جگہ لے لے، اس وقت معاشرہ میں بحرانی حالت حاکم ہوجاتی ہے ۔
1۔ تعلیمی بحران
جب بھی کسی ملک میں سیاسی استحکام کی جگہ سیاسی ناپائیداری لے لے اور قومی یکجہتی کی جگہ تفرقہ و اختلاف لےلے، تو چند وجوہات کی بنا پر اُس وقت سب سے پہلی چیز جو متاثر ہوتی ہے اور بحران کا شکار ہو جاتی ہے وہ اُس ملک کی تعلیم ہے ، کیونکہ کسی بھی قوم کو تعلیمی میدان میں پیشرفت کےلیے امن و سکون یا دوسرے الفاظ میں ذہنی آسودگی کی ضرورت ہے لیکن سیاسی ناپائیداری میں سب سے پہلی چیز جو قوم ہاتھ سے دے بیٹھتی ہے ذہنی آسودگی ہے ، دوسرا یہ کہ تفرقہ کی وجہ سے سب سے پہلے ملک جس چیز کو قربان کرتا ہے وہ علمی شخصیات ہیں اگر آج سروے کیا جاے تو معلوم ہوگا اَسی (80) کی دہائی سے لیکر آج دن تک سب سے زیادہ علمی شخصیات کو ٹارگٹ بنایا گیا ہے ، تیسرا یہ کہ سیاسی ناپائیداری کی وجہ سے تمام سیاسی جماعتوں کا تمرکز اقتدار کے حصول پر ہوتا ہے اور تعلیم وہ آخری چیز ہوتی ہے کہ جس کی طرف شاید کوئی توجہ دے ، چوتھا یہ کہ سیاسی ناپائیداری سے فائدہ اُٹھاتے ہوے نااہل طبقہ مہم پوسٹوں پر پہنچ جاتا ہے جس کی وجہ سے تعلیم کا معیار ملک میں منفی میں چلا جاتا ہے اور اس عمل سے پڑھے لکھے طبقہ کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور نا لائق طبقہ کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور یہیں سے فساد معاشرے میں جنم لیتا ہے اور پھر اس جیسے ہزاروں دیگر مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔
2 ۔معاشی بحران
ایک اور چیلنج جو سیاسی ناپائیداری کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے وہ معاشی بحران ہے ، چونکہ اقتدار کی رسہ کشی میں بہت سارے خیانت کاروں کو مال بٹورنے کا موقع ملتا ہے لہذا اس فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بڑی سطح پر کرپشن کا دروازہ کھول جاتا ہے کیونکہ اِن لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ قانون کی بالادستی نہیں ہے ، سیاسی طور پر ملک حرج و مرج کا شکار ہے اور فساد نے ہر جگہ کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے لہذا ہم جو بھی کرتے رہیں ہم سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے اور یہ لوگ کو خلائی مخلوق نہیں ہوتی بلکہ انہی مختلف جماعتوں کے افراد ہوتے ہیں جن کے درمیان اقتدار کی جنگ چل رہی ہوتی ہے یا قتدار کی رسہ کشی میں اپنے حریف کو باہر نکالنے کے لیے خود معاشی بحران کو کھڑا کرتے ہیں اور اس بحران سے فقط ریاست و عوام کو نقصان ہوتا ہے جیسا کہ ابھی پاکستان میں یہی سیاسی ہتھگنڈا چل رہا ہے ایک پارٹی جان بوجھ کر ایک بحران کھڑا کرتی ہے پھر اپنے حریف کو اُس مقصرٹھراتی ہے پھر دوسری پارٹی اس بحران سے نکلنے کے لیے آئی ، ایم ، ایف سے قرضہ لیتی ہے اور آئی ، ایم ، ایف اُس قرضہ کے بدلے میں ایسی شرائط لگاتی ہے جس سے ملک اُس بحران سے تو نہیں نکلتا بلکہ ایک اور بحران کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے ، پھر اُس بحران سے نکلنے کے لیے دوبارہ آئی ، ایم ، ایف کے پاس جانا پڑتا ہے اور اسی طرح ملک دن بدن معاشی بحران کی دلدل میں دھستا جاتا ہے اور خزانے خالی ہوجاتے ہیں ، ترقیاتی کاموں کی چھٹی ہو جاتی ہے ، بجلی ، پانی ، راستہ جیسی بنیادی ضروریات سے عوام محروم ہوجاتی ہے ۔
سیاسی ناپائیداری و تفرقہ سے پیدا ہونے والا ایک بحران ، ثقافتی و فرہنگی بحران ہے ، اوپر جتنے موارد بیان کیے ہیں درحقیقت ایسی صورت حال میں ایک نسل تربیت ہورہی ہوتی ہے مندرجہ بالا تمام امور سبب بنتے ہیں کہ ایسی نسل کو اپنے اندر جنم دیں جو اخلاقی طور پر تمام انسانی اقدار سے خالی و عاری ہو ، جسکی بنیاد جھوٹ ، فریب ، خیانت ، ہوس پرستی ،ظلم ، کم چوری وغیرہ پر ہو ، آپ تصور کریں جس ملک میں ایسی قوم پرورش پا رہی ہو تو ایسے معاشرہ کو آپ ثقافتی لحاظ سے کیا القاب دیں گے ، آیا ایسے معاشرے سے ترقی ، عزت ، غیرت ، امانت داری اور اسلامی اقدار کی توقع کی جاسکتی ہے ، آج اس سیاسی ناپائیداری کی وجہ سے ہوس پرست طبقہ اپنی ہوس پوری کرنے کے لیے ایسی قوم تربیت کررہے ہیں تاکہ اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب ہوں ۔
4 ۔ امنیت کا بحران
موجودہ ملکی حالات(سیاسی ناپائیداری و تفرقہ) میں سب سے خطرناک بحران یہ ہے کہ کسی ملک کی عوام اپنے گھر میں نا امن ہوجائے ، چونکہ سیاسی ناپائیداری و حرج ومرج درحقیقت اقتدار کی جنگ کا نتیجہ ہوتا ہے اور اقتدار کی جنگ میں ہوس اقتدار رکھنے والے اپنے مقصود تک پہنچنے کے لیے ہر حربہ کو استعمال کرتے ہیں تاکہ اپنے مقصد تک پہنچ جائیں ، چاہے اُن کو ملک میں مذہبی و سیاسی دہشتگردی ہی کیوں نہ پھیلانی پڑے جیسے اس ملک میں ایک اقتدار کی هوس میں مست نے اپنے اقتدار کی خاطر مجاہدین پالے پھر دوسرے هوس پرست نے اپنے اقدار کی خاطر اُنہی پالے ہوے مجاہدین کو اپنے راستہ سے ہٹایا اور اب پھر بعض اپنے اقتدار کی خاطر دوبارہ وہی حالت پیدا کررہے ہیں، تنہا ناامنی کا بحران کس بھی ملک کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی صورتحال میں تشیع کو (جوکہ اس وقت دنیا میں اسلام کی علمبردار قوم ہے اور تمام دشمنان اسلام کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ڈٹی ہے اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مبارزہ کی حالت میں ہے چاہے وہ ایران ہو یا عراق ، وہ یمن ہو یا سوریا ، لبنان ہو یا نیجیریا وغیرہ ) پاکستان کے اندر کونسی سیاسی روش سے استفادہ کرنا چاہیے جس سے پاکستان کو ان بحرانوں سے نجات دلاے اور دنیا کے اندر عزت و وقار کے ساتھ سربلند ہو۔
یہاں پر ہم سب سے پہلے اُن دو روشوں کو سادہ اور مختصر بیان کریں گےجس پر پاکستان میں اُمت اسلامی کے درمیان بهت گرم بحث چل رهی هے اس کے بعد یہ بیان کریں گےکہ موجودہ حالات میں اُن میں سے کونسی روش کارآمد ہے یا انکے علاوہ کوئی اور راستہ بھی مفید ثابت ہوسکتا ہے ۔
1 ۔ نظام کی تبدیلی
پاکستان کی موجودہ صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے اور ظہور کا زمینہ فراہم کرنے کے لیے اور انسانوں کی دنیاوی و اخروی سعادت کے لیے ، ہمارے پاس فقط ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم اس جمہوری نظام کو جڑ سے اُکھاڑ کر باہر پھینکے اور اس کی جگہ پر نظام الہی (امامت و ولایت) کو نافذ کریں ۔
پاکستان میں جو موجودہ مغربی جمہوری نظام ہے اس کے اندر رہ کر الیکشن میں حصہ لیں اور پارلیمان کے اندر خود کو پہنچائیں ، خود کو قوی کریں اور پھر اس طرح ملک میں موجودہ خرابیوں کی اصلاح کریں اسکے علاوہ ہمارے پاس کوئی اور چارہ نہیں ہے نظام کو تبدیل کرنا ہمارے بس کی بات نہیں ہے کیونکه پاکستان میں همارے اهل سنت بھائی اکثریت میں ہیں لہذا انقلاب لانا اور نظام کو تبدیل کرنا ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پهلا نظریہ ، قرآنی نظریہ ہے اور اس کے حصول کے لیے اقدام کرنا ہر مسلمان کا وظیفہ ہے اور اُمت اسلامی کی نجات فقط اسی نظریہ میں ہے درحقیقت یہ کسی کی شخصی نظر نہیں ہے بلکہ قرآن کریم نے اسی نظریہ کو بیان کیا ہے ، پاکستان تو کیا پوری دنیا کے مسائل اس راہ سےحل ہونے ہیں ، فقط ضروری ہے کہ وہ تمام علل و اسباب جو اس نظام کے نفاذ کے لے ضروری ہیں فراہم کیے جائیں ۔
1 ۔ اولا تو مغربی جمہوری نظام اسلامی نقطہ نگاہ سے ، اسلام کے اہداف میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے ۔
2 ۔ دوسرا یہ کہ اگر تشیع ، پاکستان کے اندر ولایت و امامت کو نافذ نہیں کرسکتا کیونکه تشیع پاکستان میں اکثریت نہیں رکھتے ، تو اس نظر کے صاحبان کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ پھر تو تشیع جمہوری نظام میں بدرجہ اولیٰ کامیاب نہیں ہوسکتے کیونکہ اسلامی نظام میں اکثریت معیار نہیں ہے جبکہ جمہوری نظام میں اکثریت معیار ہے۔
3۔ تیسرا یہ کہ پاکستان کا موجودہ سیاسی نظام اصلا جمہوری نہیں ہے کیونکہ اگر یہ جمہوری ہوتا تو یہ فقط چند خاندانوں کے درمیان محدود نہ رہتا ، مثال کے طور پر ہم فقط ایک جماعت کو دیکھ لیتے ہیں جیسے پی پی پی، اگر ہم توجہ کریں اس کا بانی ذوالفقار علی بھٹو ہے اس کی وفات کے بعد اس پارٹی کی زمام اس پارٹی کے سب سے با صلاحیت انسان کے ہاتھ میں آنی چاہیے تھی لیکن ہم دیکھتے ہیں کے بھٹو کی وفات کے بعد اس پارٹی میں بعض ایسے افراد موجود تھے جو بینظر بھٹو سے سیاست میں زیادہ صلاحیت رکھتے تھے لیکن جماعت کی چئیرمین بینظر بھٹو بنیں بغیر کسی معیار و ضابطہ کے ، اُس کے بعد اس سے زیادہ واضح مثال خود بینظیر کے بعد جماعت میں بلاول سے بڑی سیاسی شخصیات موجود تھیں اگر اُن کے ساتھ بلاول کا مقایسہ کیا جاے تو شاید بلاول وہ آخری فرد ہوگا جو جماعت کا چئیرمین منتخب ہونے کا اہل ہو لیکن بلاول کو چئیرمین بنایا گیا ، یعنی اس مسئلہ میں عوام کا کوئی رول نہیں ہے بلکہ یہ وہی بادشاہت ہے فقط نام بدلا گیا ہے ، زیادہ ہم اس مسئلہ کی تفصیل میں نہیں جاتے فقط یہی کہنا چاہیں گے کہ اس نظام کی حقیقت اِسی زمان قریب میں کھل کے سامنے آگئی ہے کہ کس طرح سے پارلیمان ملکی مسائل میں سنجیدہ ہے ، کس طرح عدالت اعظمی اور کس طرح جماعتیں ، جب ملک کے مہم مسائل ہی پاکستان کے قانون سے باہر انجام پائے(جیسے رات کو عدالتیں لگانا وغیرہ) تو اس نظام سے اور کس اچھائی کی اُمید ہے ؟
شاید راہ حل کہنا ٹھیک نہ ہو بلکہ اس کو پیشنھاد یا تجویز کہیں تو زیادہ بہتر ہے ، بہر حال ہم یہاں پر سابقہ تمام بحث کا لب و لباب بیان کرنا چاہیں گے، پاکستان کی موجودہ حالت میں تشیع کی سیاست کیا ہونی چاہیے؟؟
موجودہ ملکی صورتحال میں تشیع کی نمائندگی کرنے والی تمام شخصیات کو مندرجہ بالا دو سیاسی روشوں کو جمع کرنا چاہیے، اس طرح سے کہ : 1 ۔ جو شیعہ مذہبی جماعتیں الیکشن کو موجودہ صورتحال میں درست سمجھتے ہیں اُن کا اِس میدان میں دو ہونا اصلا بےمعنی ہے ( کیونکہ یہ کام نہ مشروع ہے اور نہ ہی مقبول ، مشروع اس لیے نہیں ہے چونکہ یہ باعث بنا ہے کہ قوم دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے اور اُمت کو تقسیم کرنا تفرقہ کا باعث بنتا ہے اور تفرقہ بدترین گناہ ہے اور مقبول اس لیے نہیں ہے کہ درست ہے عوام کسی ایک جماعت کو حمایت کرتی ہے لیکن دل سے اس عمل کو قبول نہیں کرتی ) لہذا اِن جماعتوں کو چاہیے کہ بیشک باقی مسائل میں جدا سے فعالیت کریں لیکن الیکشن کے مسئلہ میں ایک پلٹ فارم پر ہوں ، اگر ہوسکے تو ایک ایسا پلٹ فارم درست کریں جو فقط مختص ہو الیکشن کے ساتھ اور وہ اِن جماعتوں کا مشترکہ پلٹ فارم ہو اور قوم الیکشن کے وقت اپنے مذہب سے فقط ایک پلٹ فارم کو دیکھے جس میں تمام خواص ایک نظر آئیں ، اس طرح سے ملت تشیع کو موجودہ سیاسی میدان میں ایک رکھا جا سکتا ہے ، اگر یہ صورت بھی ناممکن ہو تو حد اقل الیکشن کے وقت آپس میں الحاق کریں بجائے یہ کہ کسی دوسری جماعت کے ساتھ الحاق کریں اور قوم کو دو حصوں میں تقسیم کریں ، یہ فقط اس لیے بیان کیا ہے کہ یہ میدان خالی نہ رہے وگرنہ یہ ہدف اصلی نہیں ہے بلکہ اصلی مقصد نظام الہی تک پہنچنا ہے ۔
2 ۔ انہی شیعہ جماعتوں کا ایک وظیفہ یہ بھی ہے کہ انکا حقیقی مقصد نظام امامت و ولایت ہونا چاہیے ، یعنی انکی سال بھر کی فعالیت کا رُخ امامت کی طرف ہو ، فعالیت کا محور و مرکز امامت ہو ، ایسا نہ ہو کہ آپس میں نظریاتی اختلاف باعث بنے، اور آپ قوم و ملت کے لیے جمہوریت پر دلیلیں لانے اور جمہوریت کو ثابت کرنے کی کوشش کریں اور جو الیکشن کو درست نہیں سمجھتے انکو اسلام سےباہر سمجھنے اور پھر اس پر قرآن و سنت سے دلیلیں لائیں بلکہ قوم کے لیے روشن کریں که ((( حق کا راستہ فقط امامت و ولایت ہے اور نظام ولایت کا نفاذ پاکستان تو کیا پوری دنیا میں ممکن ہے اور یہ خدا کا وعدہ ہے اور اسکو پورا ہونا ہے اور ایسا نہیں ہے کہ جب پوری دنیا پر نظام امامت و ولایت نافذ ہوگا تو تمام ادیان والے اپنا دین چھوڑ کر مسلمان ہوجائیں گے اور تمام مذاہب اسلامی اپنا مذہب چھوڑ کر شیعہ ہوجائیں بلکہ تشیع جو کہ اسلام کی حقیقی شکل ہے تمام ادیان و مذاہب پر غالب آجائے گی ، اسلام کا غلبہ ہوگا اور قرآن کریم نے اسی کو بیان کیا ہے اور درحقیقت یہی ظہور ہے ) )) ہم نے اب جس روش کا انتخاب کیا ہوا ہے یہ ہماری مجبوری ہے ہمیں تمام تر توانائیاں صرف کرنی چاہیے تاکہ بہت جلد مجبوری کی حالت سے نکل کر معمول کی حالت میں آکر فعالیت کریں ، اِس طرح قوم و ملت کو حقیقی مقصد کی طرف جہت بھی ملے گی اور قوم کے اندر اتحاد و وحدت بھی قائم ہوگی جو تمام کامیابیوں کا راز ہے ۔
3۔ ہماری ان جماعتوں کو چاہیے کہ اپنی فعالیت کو فقط الیکشن لڑنے کے ساتھ خاص نہ کریں بلکہ الیکشن ان کی فعالیت کا فقط ایک جزءہے جیسا کہ پہلے بیان ہوا سیاست معاشرہ چلانے کی روشیں کو کہتے ہیں اور یہ کام صرف الیکشن کے ساتھ خاص نہیں ہے ، بلکہ معاشرہ کے اندر شعور و بصیرت ، تعلیم وتربیت ،اقدار و اخلاق پید اکرنا بھی انکی ذمہ داری ہے ، لہذا اگر ان میدانوں میں خود کو مضبوط کریں تشیع کی سیاست خود بخود مضبوط ہوگی ۔
4 ۔ جن کے نزد الیکشن درست نہیں ہے وہ اپنی تمام تر توانائیاں نظام امامت و ولایت کی تفسیر و تبیین میں صرف کریں اور نظام کے تمام ابعاد ( سیاسی ، اقتصادی ، اجتماعی و ثقافتی وغیرہ) کو موجودہ زمانے کے مطابق تدوین کریں اور دنیا کے سامنے پیش کریں ، اور آپس میں نظریاتی اختلاف کو فقط نظریاتی اختلاف کی حد تک رکھیں ، اس اختلاف کو دشمنی میں تبدیل نہ ہونے دیں بلکہ عملی طور پر اتحاد و وحدت کا پرچار کریں ، اس مسئله کی وضاحت کےلیے چاهتا هو رهبر معظم کے وه بیانات بطور دلیل پیش کروں جو رهبر معظم نے 8 مئی 2019 کو طلاب کے ساتھ ملاقات میں بیان فرمائے ۔
رهبر معظم حفظه الله فرماتے هیں :
اہم نکتہ : اس بحث کا سب سے مہم نکتہ یہ نکلتا ہے کہ کسی بھی صورت میں اِن تمام گروہوں کے درمیان تداخل نہیں ہونا چاہیے بلکہ اگر کسی ایک شعبہ میں کسی ایک فرد ،گروہ یا جماعت نے فعالیت شروع کی ہے تو دوسرے کو خوشحال ہونا چاہیےاور اس کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے چونکہ اس میدان کی ذمہ داری و مسؤلیت آپ کے ایک بھائی نے لے لی ہے لہذا آپکو اب اس میدان سے آسودہ خاطر ہونا چاہیے اور آپ کو فقط اپنی فعالیت پر متمرکز ہونا چاہیے ۔
5۔ تمام گروہوں سے گزارش ہے کہ قوم و ملت کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دیں اور تعلیمی بحران سے ملت کو باہر نکالیں ، ملکی تعلیمی نظام کے سہارے پر ملت تشیع کو نہ چھوڑیں بلکہ ملت کے جوانوں کی تربیت کی خاطر خود سے معیاری تعلیم کا اہتمام کریں تاکہ ملت تشیع پاکستان علمی رشد کرے آج ملت تشیع پاکستان علمی لحاظ سے صفر پر ہے اس وقت اگر ہم یہ کہیں کے کلی طور پر پاکستان کے اندر جہالت کے لحاظ سے شیعہ قوم کا پہلی تین قوموں میں شمار ہے تو یہ مبالغہ نہیں ہوگا کیونکہ وہ لوگ جو معاشرے میں تبلیغی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں وہ اس چیز کو بہتر درک کرسکتے ہیں۔
6۔ اِسی طرح ایک اور چیز جس کی طرف ہماری بحثیت قوم توجہ ہونی چاہیے وہ اقتصاد ہے اس وقت ہم پاکستان میں بحثیت قوم اقتصادی لحاظ سے بہت کمزور ہیں لہذا ہمیں اقتصادی لحاظ سے خود کو بہت مضبوط کرنا ہوگا اور یہ قوم کے زعماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ قوم کو اس بحران سے نکالنے کے لیے چارہ جوئی کریں، لہذا اگر ملت تشیع کے اندر یہ مثلث درست کی گئی تو کوئی بھی پاکستان کے اندر حتٰی دنیا کے اندر ملت تشیع پاکستان کا مقابلہ نہیں کرسکتا ، اُس وقت نہ فقط ملت تشیع رفاہ و امن میں رہے گی بلکہ تمام اُمت اسلامی ، تشیع کی بدولت رفاہ و امن میں زندگی گزارے گی اور یہ مثلث اِن تین زاویوں پر مشتمیل ہے ۔
1 ۔ سیاسی امور میں تداخل و تفرقه کے بجائے اتحاد و وحدت 2 ۔ملت کی تعلیم وتربیت اسلامی 3 ۔ مضبوط اقتصاد
فہرستِ منابع
لغت معین ، لغت عمید ، لغت لسان العرب ، لغت العین ، لغت نامہ دہخدا ، لغت مرآۃ العقول
اصول علم سیاست ( موریس دوورژه، ترجمه دکتر ابوالفضل قاضی ) نظریههای دولت، اندرووینست، ترجمه حسین بشری
صحیفہ امام خمینی رہ ، الکافی، شیخ کلینی، بصائر الدرجات، محمد بن حسن صفار، کنز العمال، متقی هندی، بحار الانوار، علامه مجلسی)
الھم صل علی محمد وآل محمد
بنیان مرصوص اسلامی فکری مرکز
غزوہ بنی نضیر (تحلیلی نقطہ نگاہ سے)
تحریر ؛ تابعدار حسین
22 ربیع الاول 1442 ھ ق
بمطابق 8 نومبر 2020
فارسی زبان کی معروف کهاوت هے که (گذشته چراغ راه آینده است ) یعنی گزرا هوا زمانه آنے والے زمانے کی راه کے لیے چراغ هے ، اس سے مراد یه هے که جو ماضی کے اندر واقعات و حوادث رونما هوئے هیں وه انسان کے لیے آئینه هیں لهذا انسان کو جن تاریخی واقعات سے عبرت لینی چاهیے اُن واقعات سے عبرت لے اور جن حوادث سے درس ملتا هے وهاں سے درس لے ، اسی لیے تو تاریخ کو آئینه کے ساتھ تشبیه دی گئی هےاور کها گیا هے که تاریخ ، انسان کے لیےآئینه هے اور انسان اُس گذشته آئینه سے اپنے آئنده کو روشن کر سکتا هے ۔
گذشته قوموں کی تاریخ کے متعلق حضرت امام علی علیه السلام نے امام حسن علیه السلام کو فرمایا ؛ اے فرزند ! اگرچہ میں نے اتنی عمر نہیں پائی جتنی اگلے لوگوں ( گذشته تاریخ کے لوگ ) کی ہوا کرتی تھیں .پھر بھی میں نے ان کی کار گزاریوں کو دیکھا ,ان کے حالات و واقعات میں غور کیا اور ان کے چھوڑے ہوئے نشانات میں سیر و سیاحت کی ,یہاں تک کہ گویا میں بھی انہی میں ایک ہو چکا ہوں بلکہ ان سب کے حالات و معلومات جو مجھ تک پہنچ گئے ہیں ان کی وجہ سے ایسا ہے کہ گویا میں ان کے اوّل سے لے کر آخر تک کے ساتھ زندگی گزاری ہے .چنانچہ میں نے صاف کو گندلے اور نفع کو نقصان سے الگ کر کے پہچان لیا ہے ۔ (نهج البلاغه نامه 31 )
اور اسی طرح ایک اور مقام پر فرماتے هیں ؛ تمہارے لیے گذ شتہ دوروں (کے ہر دور )میں عبرتیں (ہی عبرتیں ) ہیں (ذرا سوچو کہ) کہاں ہیں عمالقہ اور ان کے بیٹے،اور کہاں ہیں فرعون اور ان کی اولادیں ؟
( نهج البلاغه خطبه 180)
لهذا اس حدیث نورانی امیرالمومنینؑ کی روشنی میں اگر انسان تاریخی واقعات کے اندر غور و فکر کرےتو ان کے اندر چُھپے هوے گوهر تک پهنچ جاےگا که بلآخر قوموں کی کامیابی کا راز کس چیز میں هے؟ اور اسی طرح قوموں کی نابودی کی وجوهات کیا هیں ؟ اور اس سے بڑھ کرهم و هماری قوم و ملت جس راسته پر چل رهی هے اس راسته کا انجام کهاں پر هے ؟ آیا یه راسته سعادت کی طرف جاتا هے یا هلاکت کی طرف ؟ آیا جس راسته پر هم چل پڑے هیں تاریخ میں کون سی قوم و ملت اس راسته پر چلی اور انکا انجام کیا هوا ؟
ان تمام مسائل کا حل انسان کو گذشته تاریخی واقعات میں فکر کرنے سے ملے گا ، اس وجه سے قرآن کریم نے سابقه قوموں کے حالات ذکر کرنے کے بعد فرمایا که ان واقعات میں عاقلوں کے لیےنشانیاں هیں ، لهذا هم اِن تاریخی واقعات کو ایک داستان و قصه سمجھ کر مطالعه نه کریں بلکه ایک معیار و میزان کے طور پر مطالعه کریں تاکه هم تاریخی عبرتوں اور تاریخی درسوں تک پهنچ سکیں اور پھر اپنے اردگرد کے ماحول کی اصلاح کرسکیں ۔
اُنهی تاریخی واقعات میں سے ایک تاریخی واقعه غزوه بنی نضیر هے جو که 22 ربیع الاول 4 هجری قمری کو رونما هوا هے اور تاریخ اسلام کے مهم و رقم ساز واقعات میں سے ایک هے اور اس تاریخ ساز واقع کو اب یعنی 22 ربیع الاول 1442 هجری قمری کو 1438 سال کامل هوجائیں گے، لیکن کیا هم نے کبھی اس واقع کے مختلف پهلوں میں غور و فکر کیا هے ؟ کیا اس سے هم نے کبھی عبرتیں اور درس لیے هیں ؟ کیا هم نے اپنے موجوده حالات کے حل کے لیے کبھی اس واقع یا اس جیسے باقی واقعات کا مطالعه کیا هے؟ اس کا جواب همیں اپنے ضمیر کے ساتھ هم کلام هونے سے مل جائے گا ۔
هم یهاں پر غزوه بنی نضیر کو تفصیل کے ساتھ ذکر نهیں کریں گےبلکه فقط اشاره کریں گے اور اُن کے مختلف پهلوں میں سے ایک پهلو کو جو که همارے مد نظر هے اس کو بیان کریں گے ۔
رسول الله (ص) نے مکه سے مدینه هجرت کرنے کے بعد مدینه کے اندر اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی اور اس نوزاد حکومت کی رهبری خود فرمائی ، ایک مهم سیاسی عمل جو آپ (ص) نے انجام دیا ، مدینه کے اطراف میں آباد یهودیوں کے ساتھ صلح کے عهد و پیمان باندھےاور دونوں طرف سے موافقت بھی هوئی ، لیکن یه پیمان زیاده دوام نهیں لا سکے اور بالآخر یهودیوں کے قبیله بنی نضیر نے پیمان شکنی کی اور رسول الله (ص) کو ٹارگٹ (قتل) کرنے کی سازش بنائی که جس سے رسول الله (ص) وحی کے ذریعے آگاه هو گئےاور پھر اس طرح یهود کے ساتھ دوسری جنگ کا آغاز هوا ، رسول خدا (ص) نے یهودیوں کو حکم دیا که وه مدینه کو چھوڑ کر چلے جائیں پهلے تو انهوں نے قبول کیا لیکن بعد میں عبدالله ابن ابی جو که منافق تھے اُن کے کهنے پر یهود نے مقاومت دکھائی ، تو اُس وقت رسول الله (ص) نے قلعه کا محاصره کرنے کا حکم دیا اور بلآخر پندره دن میں یهودی تسلیم هوگئے اور پھر مدینه کو ترک کیا ، یه هے اس غزوه کا تاریخی خلاصه ، تفصیل تاریخی کتابوں میں ذکر هے ۔
اب هم اِس کے اُس پهلو کی طرف اشاره کرتے هیں جو که همارے مد نظر هےاور وه داستان یه هے که اِس واقعه کے وقت همارے سامنے تین طبقات هیں ۔
1 ۔ اُمت اسلامی 2 ۔ رهبر اسلامی 3 ۔ دشمن خدا (یهود)
دشمن خدا نے نبی خدا کو قتل کرنے کی سازش کی اور خدا کے رسول دشمن کی اس سازش سے آگاه هوجاتے هیں اب اس کے بعد اُمت اسلامی کا امتحان کا وقت شروع هوتا هے اور اب اُمت اسلامی کے سامنے فقط دو راسته هیں ، ایک تو یه که میدان میں آجائیں اور دشمن کے خلاف اُٹھ کھڑے هوں اور دوسرا یه که میدان کو خالی چھوڑ دیں یعنی اپنے وقت کے رهبر کے دفاع کے لیے نه نکلیں ، اور پھر اِن هر دو راستوں کا نتیجه مختلف نکلے گا ، ایسا ںهیں هے که هر دو صورتوں میں نتیجه ایک هو ، بس اُس وقت اُمت اسلامی نے پهلے راسته کا انتخاب کیا اور مقاومت دکھائی اور کامیاب هوگئے اور اپنے دشمن کو بُری طرح شکست سے دی البته اُس وقت مسلمان اقلیت میں تھے لیکن اُنهوں نے اپنے رهبر سے یه نهیں کها که هم تو بهت کم هیں اور پوری دنیا هماری دشمن هے بلکه انهوں نے اپنے الهیٰ رهبر کی آواز پر لبیک کها ، لیکن اگر یهی اُمت دوسرے راسته کا انتخاب کرتی تو پھر نتیجه کچھ اور هوتا پھر نه فقط پیامبر (ص) کی جان خطره میں هوتی بلکه اُمت اسلامی بھی جنگ سے بڑے خطره میں گہیر جاتی ، جیسے سابقه اُمتوں میں هوا که اپنے نبی کا ساتھ نهیں دیا پھر کسی طاغوت کے چنگل میں پھنس گئے که اس طرح کی متعدد مثالیں بنی اسرائیل میں موجود هیں ۔
بس فرق نهیں پڑتا که دشمن ، رسول الله (ص) کے بدن و جسم پر حمله کرنے کی سازش کرے یا آپ کی پاکیزه و مطاهر شخصیت پر حمله آور هو ، جب رسول الله (ص) کی جان کو خطره تھا تو اُس وقت اُمت اسلامی نے آپ (ص) کا دفاع کیا اور کیا خوب دفاع کیا ؟ که آج بھی تاریخ اُن جانثاروں پر ٖفخر کرتی هے ، چاهے وه شب هجرت هو یا جنگ اُحد هو یا طائف کے پتھر هوں یا بنی نضیر کے یهودیوں کی ناکام سازش هو ، لهذا اُمت اسلامی کی کامیابی کا راز یه تھا که دفاع دین و دفاع رسول الله (ص) کے لیے همیشه آماده تھے اور اس وجه سے پوری دنیا کو تسخیر کیا اور اُمت اسلامی ایک شکست ناپذیر طاقت هوکر دنیا میں اُبھری لیکن آج اُسی اُمت اسلامی کو کیا هوا که هر آئے دن دشمن ، رسول الله (ص) کی شخصیت پر حمله آور هوتا هے اور آپ کی شان میں توهین کرتا هے اور مسلمان اتنے بےبس ہوجاتے ہیں که کچھ کر بھی نهیں سکتے اور مسلمانوں کی آواز تک یهود و نصاریٰ کے سامنے نهیں نکلتی ، بالآخر مشکل کهاں پر هے؟ کل وه کم هوکر بھی دشمن پر بھاری تھے اور هم آج زیاده هوکر بھی دشمن کے سامنے رسوا هیں ، انهوں نے کم هوکر بھی بڑی بڑی طاقتوں کو شکست دی اور هم زیاده هوکر بھی اپنا دفاع تک نهیں کرسکتے اور دنیا کے هر کونے میں مسلمان هی فقط مظلوم هے ، آخر کیوں ؟
کیونکہ وه دین اسلام کے دفاع کے لیے اور پیامبر اسلام کے دفاع کے لیے همیشه آماده تھے، وه اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار تھے لیکن همارا دین فقط زبان کا رهے گیا هے، وه کم تھےلیکن متحد تھے ، هم زیاده هونے کے باوجود فرقوں میں بکھر گئے هیں ، وه اپنا مال لے کر گلیوں میں محتاجوں کی تلاش میں گھومتے تھے اور هماری نظر دوسروں کے مال پر هوتی هے ۔
یه هے هم میں اور اُن میں فرق ، لذا اگر هم چاهتےهیں که آج کےغزوه بنی نضیر میں کامیاب هوں تو کل کے غزوه بنی نضیر کو عملی کرنا هوگا ، اُس وقت کسی پیرس کے شیطان کی همت نهیں هوگی که همارے پیارے نبی حضرت محمد صلی الله علیه و آله وسلم کی شخصیت کشی یا توهین کا سوچے ، سوچنے سے هی دشمن گھبرائے گا ، عمل کرنا تو دور کی بات هے ، فقط همیں تاریخی اصولوں اور اپنے اسلاف کی سیرت کی طرف پلٹنا هوگا ، پھر دیکھیں کامیابی کیسے اُمت اسلامی کے قدم چومتی هے ۔
والسلام
الھم صل علیٰ محمد و آل محمد
#غزوہ بنی نضیر (تحلیلی نقطہ نگاہ سے)
تاریخ
26 ربیع الاول 1442 ھ ق
12 نومبر 2020
تحریر ؛ تابعدار حسین
قدیم زمانے میں دشمن کی پهچان آسان تھی اور اسی طرح دشمن کے تمام هتھیاروں کے بارے میں معلومات لینا بھی کوئی مشکل کام نهیں تھا اور بیشتر جنگیں بھی آمنے سامنے هوا کرتی تھیں اور اسی طرح هر دو طرف سے لڑنے والے فریق بھی اُس وقت کے قواعد و ضوابط کے پابند هوا کرتے تھے مگر بهت کم ایسے نمونه تاریخ میں ملتے هیں جو بهت هی رذیل و پست تھے لیکن بیشتر قوانین کی پاسداری کرتے تھے ، البته یه قوانین اُن کی غیر منطقی عقلوں کی نمائندگی کرتے تھے لیکن جو بھی تھا اس کے پابند هوا کرتے تھے ، همیں تاریخ میں بهت سے ممالک کے درمیان ، اسی طرح قوم و قبائل کے درمیان حتی مختلف ادیان کے درمیان جنگیں ملتی هیں ، جس میں ایک چیز سب کے نزدیک ثابت هے۔
اور وه یه هے که هر فریق کو معلوم هوا کرتا تھا که میرا دشمن کون هے اس کے پاس کیا هتھیار هے اس نے کس مقام پر کس هتھیار کے ساتھ حمله کرنا هے حتی یه روش پندرویں و سولهویں صدی میلادی تک بھی آسانی کے ساتھ نظر آتی هیں ، اگر هم دو جملوں میں اِن مطالب کو بیان کرنا چاهیں تو کہہ سکتے هیں که درست هے وه جنگی تدابیر استعمال کرتے تھے لیکن اُس زمانه میں جنگی منافقتیں نهیں تھیں اگر تھیں تو بهت کم ، اُسکی وجه یه هے که وه اِس پیشرفته دور میں زندگی نهیں کر رهے تھے ۔
لیکن آج کا زمانه اُس زمانه کے ساتھ فرق کرتا هے ، آج کا دشمن دکھائی نهیں دیتا ، اُس کے هتھیار کو دیکھنے کے لیے غیر معمولی آنکھوں کی ضرورت هے ، چونکه یه معمولی آنکھوں سے نظر آنے والے نهیں هیں ، آج کا انسان جس دشمن کے خلاف گلی ، کوچوں میں نعرے لگا رها هوتا هے ، اُسی کے گھر میں دشمن کا فحاشی پھیلانے والا هتھیار موجود هوتا هے اور اِس کو معلوم تک نهیں هوتا ، یا یه اِس کو اصلا دشمن کا هتھیار هی نهیں سمجھتا بلکه کهتا هے که میں نے تو اس کو خبریں سننے کے لیے رکھا هوا هے یا کهتا هے که میں نے اِس پر دینی چینل چلانے کے لیے رکھا هوا هے ، هم بھی حُسن ظن رکھتے هوئے پوچھنا چاهتے هیں ، اگر آپ نے فقط خبروں کے لیے رکھا هوا هے تو بس اِس کو چھت په کیوں رکھا هوا هے ، کیا چھت په زیادی خبریں سناتا هے ؟ نه چھت پر غربی و عبری و عربی چینل زیاده دیتا هے ، درحقیقت آج کا دشمن اپڈیٹ هے اور اُس کو پته هے کونسی جگه پر اور کس هتھیار کے ساتھ حمله کرنا هے ، لیکن دوسری طرف سے بصیرت کی ضرورت هے جس کی شدت کے ساتھ اسلامی معاشرے میں کمی هے ۔
یهاں پر هم نے یه تو ایک ساده سی مثال دی هے جو که آج کے دور میں پُرانی شمار هوتی هے اور اب بات یهاں سے بڑھ چکی هے ، اب دشمن نے اپنے هتھیاروں کو اُمت اسلامی کے هاتھوں میں پهنچا دیاهے اور ساتھ هی ذهنوں کو مفلوج کر دیا هے اور هم دشمن کے هتھیار سے اپنے اُوپر حمله کرتے هیں اور خود کو ، اپنے عقائد کو ، اپنے افکار کو زخمی کرتے هیں ، اور یه ایسا نهیں که همیں معلوم هوتا هے اور هم جان بوجھ کر اپنے عقائد ، افکار و سوچوں کو زخمی کرتے هیں ، بلکه یه سب کچھ هم نه جانتے هوے اور لاعلمی میں انجام دیتے هیں ، اسی لیے شروع میں کها که آج کا دشمن و اُس کا هتھیار نامرئی و نظر نه آنے والا هے ، لهذا اُمت اسلامی کے اندر شعور ، بصیرت و بیداری کی ضرورت هے ۔
چونکه هماری یه تحریر آج کی مناسبت کے حوالے سے هے لهذا جاتے هیں اپنے اصلی موضوع کی طرف ، البته هم آج کی مناسبت کے حوالے سے جو مطلب بیان کرنے جارهے هیں اگر مبالغه نه هوتو اُردو زبان میں بهت کم بیان هوا هے ، اور اس مطلب کا شروع میں بیان شده مقدمه کے ساتھ گهرا ربط هے بس وه مطالب بھی ذهن میں رهے ۔
سب سے پهلے یه بتاتے چلیں که آج یعنی 26 ربیع الاول کو حضرت امام حسن علیه السلام و معاویه کے درمیان صلح کا عمل انجام پایا ، جو تاریخ کی تلخیوں میں سے ایک ایسی تلخی هے جس کے انجام پر امام حسن علیه السلام کو بهت رنج و تکلیف برداشت کرنا پڑی ، اور یه مناسبت صلح امام حسن علیه السلام کے نام سے مشهور هے ۔
اس صلح نامه کے بهت سے پهلوں هے جن پر بزرگان کی متعدد کتابیں لکھی جا چکی هیں اور اس کے مختلف پهلوں کو بیان کیا گیا هے اور هم یهاں پر نهایت هی اختصار کے ساتھ ایک پهلو کو بیان کریں گے ۔
هم نے آغاز میں بیان کیا هے که آج کا دشمن اسلام ، اسلام کے ساتھ دشمنی میں بهت آگے تک جا پهنچا هے اور جن هتھیاروں سے مسلمانوں کے خلاف میدان میں نبرد آزما هے اُن میں بهت سے نامرئی هتھیار هیں ، جن کو سمجھنے کےلیے ایک عام انسان قاصر هے اور یه خواص کی زمه داری هے که وه عوام کو اِن سے آشناء کریں ۔
اُن هتھیاروں میں سے جدید ترین هتھیار جو دشمن استعمال کر رها هے وه مختلف دینی ، سماجی ، سیاسی، معاشرتی و فرھنگی کلمات و الفاظ ( یعنی اصطلاحات ) کا اسلامی معاشرے میں مسلمانوں کی زبانوں سے غلط استعمال کروانا هے ۔
ان الفاظ کا غلط معنی دشمن کی طرف سے اسلامی معاشروں میں پھیلایا جا رها هے اور افسوس کے ساتھ مسلمان اس المیه کی طرف متوجه نهیں هے ۔
هم یهاں پر اُن میں سے چند اصطلاحات کی طرف اشاره کرتے هیں جو که درجه ذیل هیں ۔
آزادی
اسلام بھی آزادی کا قائل هے بلکه تمام موجوده و غیر موجوده ادیان سے زیاده آزادی کو بیان کیا هے۔
لیکن دشمن نے اسی مفھوم کے معنی کو توڑ مروڑ کر آج اسلامی دنیا میں آزادی کا نعره لگایا هے لیکن کون سی آزادی؟ مغرب دنیا نے مسلمانوں کی طاقت و قوت کو ختم کرنے کے لیے غلط معنی کے ساتھ اسلامی معاشره میں داخل کیا هے ، اور کها آزادی یعنی بے دینی ، انسان آزاد هے یعنی انسان حیوان هے جو مرضی کرتا رهے اس کے لیے کوئی قانون و شریعت نهیں هونی چاهیے چوں انسان آزاد هے ، اور اس نعره کی اس طرح سے اسلامی ممالک میں تبلیغ کی که پاکستان جیسے اسلامی ملک کے دارالحکومت میں میرا جسم میری مرضی کے نعره حکومت و نام نهاد فضله خور میڈیا کی سرپرستی میں لگاے گئے اور یه جن لوگوں نے آکر روڈوں پر نعره لگاے یه کوئی غیر مسلم نهیں تھے بلکه اسلامی ریاست میں رهنے والے مسلمانوں کے گھروں سے آئے تھے ، بس اسلامی معاشرے میں یه نامرئی هتھیار اثر کرتا هے اور یه هتھیار ایٹم بمب سے زیاده خطر ناک هے ۔
در حالیکه اسلام نے آزادی کو اس معنی میں استعمال نهیں کیا بلکه اسلام کی آزادی ، انسان کو سب سے پهلے اپنے نفس کے شھوانی زندان سے آزاد کرتی هے ، اسلام میں آزادی یعنی غلامانه زندگی جرم هے ، یعنی عزت کی موت کو ذلت کی زندگی پر ترجیح دینا ، آزاد انسان یعنی خوددار ، آزاد یعنی باعفت ، آزاد یعنی باشرافت ، آزاد یعنی با عزت ۔۔۔
اب دشمن نے اس مقدس کلمه کو غلط معنی کے ساتھ اس طرح داخل کیا که اس نے سب سے پهلے لا شعورا مسلمانوں کے عقائد پر اثر انداز هوا اور پھر عملی زندگی میں ۔
وطن
اسی طرح لفظ وطن کو غلط معنی کے ساتھ استعمال کیا ، اگر ملک خداداد میں کوئی مصلح آے جو فساد کو ملک سے ختم کرنا چاهتا هو ، فورا اس پر هجوم هوتا هے که یه تو وطن کے ساتھ خیانت کرنا چاهتا هے ، یه تو آئین کی مخالفت کرنا چاهتا هے ، مثلا اگر آپ نے ملک میں ولایت کی بات کی تو فورا آپ کو اپنے هی کهیں گے بات تو آپ کی ٹھیک هے لیکن همارا أئین بھی تو هے بس مشکل هے یه بات کرنا ، جبکه یه دونوں موضوع بالکل جدا هیں ، ایسا کیوں کها جاتا هے اس لیے که یه فکر دشمن کی طرف سے اسلامی معاشرے میں داخل کی گئی هے اور پھر اس کو رائج کیا گیا اور اب یه سب کا عقیده بن گیا هے اور نصف صدی گزر گئی ملک میں اس بے شعوری نے ترقی کے راسته کو روکا هوا هے ۔
ولایت
اسی طرح ولایت کا غلط معنی رائج کیا گیا هے البته اس میں تو پوری ایک داستان هے ، اس عظیم قرآنی و الهیٰ اصطلاح کے ساتھ وه کام کیا گیا که آج همارے ملک میں وه طبقه که جو جهالت کی عوج پر پهنچا هوا هے وه ولایت کے ٹھیکه دار بنے هوے هیں اور جو ولایت کا معنی کرتے هیں ، پوری تاریخ میں اس مقدس اصطلاح کے ساتھ ایسا ظلم نهیں هوا ، اور اگر کوئی مصلح آکر اس تحریف سے پرده اُٹھانے کی کوشش کرے تو سب هاتھ دھو کر اُس کے پچھے بهتان و تهمت و دشنام کا سلسله شروع کر دیتے هیں ، سب سے بڑی تهمت جو لگائی جاتی هے وه یه که یه دشمن علیؑ هے اور اس طرح سے چُپ کرانے کی کوشش کی جاتی هے اور بهت سارے چپ هو بھی جاتے هیں ، اب یه فکر کس نے پیدا کی ، که جو بھی ولایت کو صیح معنوں میں پیش کرے اس کو دشمن علیؑ کهه کر چپ کرا دی جاے ؟ جی اس فکر کی کاشت برطانیه سے هوئی هے اور دشمن نے داخل کیا هے، اور بعض نادان اسکو مومنین کے خلاف استعمال کرتے هیں ۔
اسی طرح اگر کچھ انقلابی جوان معاشره میں امر بالمعروف و نهی عن المنکر انجام دے رهے هوں تو اُن کے اُوپر شدت پسندی کے فتوے لگاے جاتے هیں ، اور کهتے هیں یه شدت پسند هیں ، اس طرح سے اُن کو بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی هے تاکه لوگوں کے ذهن میں یه بات راسخ هوجاے که واقعا یه شدت پسند هیں ، جب کسی کے بارے میں ایسی فکر پیدا هو گی تو کون حاضر هے که جو ان کی بات سنے ، بالآخر یه شدت پسندی کی اصطلاح کو ایک واجب و نیک کام کے مقابلے کس نے لایا ؟ کس نے یه فکر بنائی که جو بھی امر بالمعروف کرے وه شدت پسند هے؟ یه دشمن کا هتھیار هے جو مسلمانوں کے هاتھوں میں دیا گیا هے جو مسلمان ایک دوسرے کے خلاف چلا رهے هیں ۔
صلح امام حسن علیہ السلام
اُنهی اصطلاحات و الفاظ میں سے ایک صلح امام حسنؑ هے که جس کو اپنے ذاتی مقاصد حاصل کرنے کےلیے، اپنی جماعت کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے ، یا اپنی بے کفایتی و بزدلی کو چھپانے کے لیے استعمال کیا جاتا هے اور اپنے کاموں کی توجیه پیش کرنے کے لیے صلح امام حسنؑ کا سهارا لیا جاتا هے ، اور کها جاتا هے امامؑ نے بھی تو معاویه کے ساتھ صلح کی تھی در حالیکه آج کے حالات و اُس زمانه کے حالات کاملا مختلف هیں ، اُس زمانه کے شیعه کی طاقت میں اور آج کے شیعه کی طاقت میں زمین و آسمان کا فرق هے ۔
بعض صلح امامؑ کو غلط معنی میں لاشعوری طور پر استعمال کرتے هیں اور بعضوں کو معلوم نهیں هوتا که اس طرح کی باتیں دشمن کی ایماء پر اُن سے کرائی جا رهی هیں ۔
اسی مطلب کے متعلق رهبر معظم حفظه الله سے سوال کیا گیا که کیا امکان هے که صلح امامؑ آج کے دور میں تکرار هو ؟ رهبر معظم حفظه الله نے فرمایا ؛
امروز دشمن قادر نیست، امروز آمریکا و بزرگتر از آمریکا به برکت ملت هوشیاری مثل ملت ایران، قادر نیستند بر دنیای اسلام امروز حادثهای مثل حادثۀ صلح امام حسن (ع) را تحمیل کنند؛ دشمن اگر خیلی فشار بیاورد، حادثۀ کربلا اتفاق خواهد افتاد ۔
ترجمه
آج دشمن اتنا طاقتور نهیں هے که دنیا اسلام پر واقعه مانند صلح امام حسنؑ کو تکرار کرے ، اگر دشمن نے بهت دباؤ ڈالا تو ، کربلا برپا هو گی ۔
لهذا ایسا نهیں هے که هر کوئی آے اور اپنے کام کی توجیه صلح امام حسنؑ سے کرے اور اُمت اسلامی کو چکر دے ۔
لهذا اُمت اسلامی کے لے بھی ضروری هے که اپنے اندر بیداری ، شعور و بصیرت پیدا کرے اور دشمن کے نامرئی هتھیاروں کی طرف توجه کرے ۔
والسلام
جوابی تحریر
از قلم : تابعدار حسین
رھبر معظم سید علی خامنہ ای کی بصیرت آمریکہ و اسرائیل کے لیے عذاب بن گی ،
ان کے چیلوں کے لیے سبق کیا؟ ؟
اس تحریر کے آغاز میں چند مہم مطالب کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور اس کے بعد اصلی بحث کا باقاعدہ آغاز کریں گے ۔
1 ۔ سب سے پہلے یہ ذکر کرتے چلیں کہ یہ تحریر جواب ہے اس تحریر کا جو 21 مارچ 2020 کو حمزہ ابراھیم نامی لکھاری کے توسط سے نیچے دیے گئے عنوان کے ساتھ لکھی گئی ۔
( آیت اللہ خامنہ ای کی اجتہادی غلطی، ایران کے لیے عذاب بن گی ۔ پاکستان کے لیے سبق کیا؟)
2 ۔ اس تحریر کے مخاطبین علمی طبقات ہیں اور باقیوں کو اس کے پڑھنے کی نصیحت نہیں کی جاتی کیونکہ ہم اس مقام پر چند اصطلاحات سے استفادہ کریں گے شاید بعضوں کے لیے باعث تشویش ہو۔
جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا ہے اس تحریر کا پہلا عنوان( کنویں کے مینڈک) کو قرار دیا ہے یہ فقط مثال ہے اپنے اصلی مطلب کو سمجھانے کے لیے اور کوئی حرج نہیں ہے کہ ہم اس مقام پر اس مثال کو ذکر کر دیں
ایک آدمی سمندر سے ایک مچھلی پکڑ کے لایا اور اسے اپنے گھر میں موجود کنویں ڈال دیا ۔
اس کنویں میں مینڈکوں کی حکومت تھی۔ مینڈکوں نے جب ایک نئی چیز دیکھی تو پہلے تو وہ ڈرے گھبرائے دور دور گھومنے لگے۔ آخر ایک بڑے مینڈک نے ہمت دکھائی اور مچھلی کے تھوڑا قریب گیا اور پوچھا: تم کون ہو ؟
میں مچھلی ہوں ! مچھلی نے جواب دیا
مینڈک : تم کہاں سے آئی ہو ؟
مچھلی : سمندر سے
مینڈک : وہ کیا ہوتا ہے ؟
مچھلی : وہ بہت بڑا ہوتا ہے اور اس میں پانی ہوتا ہے
مینڈک نے کہا : کتنا بڑا ؟
مچھلی : بہت بڑا
یہ سن کر مینڈک نے اپنے گرد چھوٹا سا گول چکر کاٹا اور پھر مچھلی سے پوچھا : کیا اتنا بڑا ہوتا ہے ؟
مچھلی مسکرائی اور بولی نہیں بڑا ہوتا ہے۔
مینڈک نے تھوڑا بڑا چکر لگایا اور کہا اتنا بڑا ؟
مچھلی ہنسی اور کہا نہیں بڑا ہوتا ہے۔
مینڈک اب جوش میں آ گیا اور اس نے آدھے کنویں کا چکر لگا کر مچھلی کی طرف دیکھا، جیسے پوچھ رہا ہو کہ اب ؟
مچھلی نے پھر نفی میں سر ہلایا
اب تو مینڈک نے پوری رفتار سے پورے کنویں کا چکر لگایا اور مچھلی سے کہا کہ اب اس سے بڑی تو کوئی چیز نہیں ہے ۔
مچھلی مسکرائی اور مینڈک سے کہا : تمہارا قصور نہیں ہے کہ تمہاری سوچ ہی اس کنویں تک ہے۔
اب آپ ذرا توجہ کریں کہ وہ کون سی چیز ہے جس نے اس مینڈک سے سمندر جیسے عظیم موجود کا انکار کرایا؟ کیا باعث بنا؟
ظاہرا وہ مینڈک کی جہالت ہے چونکہ اُس کو کنویں کے علاوہ کسی چیز کا علم نہیں تھا۔
ہمارے معاشرے میں بھی بعض لوگوں کی مثال اس مینڈک کی سی ہوتی ہے جو اپنی جہالت کی بنیاد پر سچ و صداقت کے سمندر اور حقیقت کا انکار کر دیتے ہیں اور ان افراد کا ظرف اس چڑیا کی طرح ہوتا ہے جو پھلوں کے باغ میں مختلف پھلوں کے درختوں پر بیٹھ کر ہر پھل کو اپنی چونج سے ضربیں لگاتا ہے اور اس طرح سے اس کا معدہ بھر جاتا ہے لیکن اگر کوئی اس چڑیا سے ان پھلوں کے متعلق پوچھے تو اس کے معدہ میں پھلوں کی مقدار کہاں اور ان پھلوں کی عظیم حقیقت کہاں ۔
اور یہ افراد جو خصوصا مغرب سے دو لفظ پڑھ کر آتے ہیں یہ بھی چڑیا کی طرح بعض علوم سے اپنی چونج گیلی کرتے ہیں جبکہ ان کا باطن علوم سے خالی ہوتا ہے اور پھر خود کو عالم و دانشور تصور کرتے ہیں اور پھر مینڈک کی طرح سمندر کے متعلق اظہار نظر کرتے ہیں ۔
جبکہ علوم کی ابجد سے ہی واقف نہیں ہوتے اور یہ آغا حمزہ ابراھیم کے جس نے( رھبر معظم سید علی خامنہ ای )کے متعلق تحریر لکھی ہے اُن جُہلاء کی دیگ کا ایک چاول ہے جو ایک تو جانتے نہیں اور دوسرا اپنے نہ جاننے کا بھی علم نہیں رکھتے اور اس قسم کے جهل جو کہ جهل مرکب ہیں عوام سے بھی بدتر ہیں ۔
موصوف نے اپنی تحریر میں کرونا وائرس کو نظریہ ارتقا کہا ہے اور یہ بھی کہا کہ چینی ڈاکٹرزنے اس نظریے کی بنیاد پر کرونا وائرس کو سمجھا ہے اور پھر اس کے علاج کی راہیں نکالی ہیں ، درحالیکہ کہ موصوف نے فقط ادعی کیا ہے بدون دلیل !
کیوں کہ ساری دنیا جانتی ہے که چائنہ کے کسی ڈاکٹر نے یہ بیوقوفانہ بات نہیں کی ہے حتی کہ چین کے وزیر خارجہ نے آغاز میں ہی آمریکہ کی اس شرارت کو دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا تھا ۔
…… چمگادڑ کا شور کرنے والے یا تو آمریکی و اسرائیلی میڈیا تھے
اور یا موصوف جیسے آمریکی چیلوں نے اپنی تحریروں میں سادہ عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔
موصوف نے اپنی تحریر میں اور جو دعوی کیا ہے وہ یہ کہ چونکہ چین ترقی یافتہ ملک ہے اس لیے اس نے بہت جلدی کنٹرول کر لیا ہے چونکہ اسلامی ممالک پسماندہ ہیں تو ان میں کنٹرول کرنا بہت مشکل ہے حتی ان ممالک میں حکومتیں بھی ٹوٹ سکتی ہیں ۔
میں موصوف جناب والا سے پوچھنا چاہتا ہوں ان کی آمریکہ و اٹیلی کے متعلق کیا رائے ہے؟؟؟؟؟ یہ تو پسماندہ نہیں ہیں وہاں کیوں اتنا جلدی پھیل گیا ہے ؟
اور اِس وقت آمریکہ میں چین سے کئی فیصد زیادہ پھیل گیا ہے 85 ہزار لوگ آمریکہ میں اس بیماری میں مبتلا ہو چکے ہیں اور اسی طرح اٹلی بھی ، اور مزہ کی بات یہ ہے وہاں پر ابھی تک کنٹرول نہیں ہوا بلکہ اضافہ ہوا ہے۔
موصوف کا ایک دعوی یہ ہے کہ ایرانی حکومت بروقت قدم اٹھانے میں ناکام رہی اس لیے عوام کو دلدل میں ڈال دیا ۔
اولا تو ایرانی عوام کوئی دلدل میں نہیں پھنسی اور ایران میں کرونا کی شرح باقی ممالک کی طرح ہے یا حتی بعض ممالک سے کم ہے جیسے اٹلی و امریکہ وغیره ۔۔۔۔۔
او ر ثانیا میرا پھر جناب والا سے یہی سوال ہے آیا آمریکہ کی حکومت بھی بر وقت قدم اٹھانے میں ناکام رہی ہے کہ اسکی عوام جو دلدل میں پھنسی ہوئی ہے اور ایران سے دوگنا کرونا وائرس آمریکہ میں پھیل گیا ہے ،
یا وہاں پر بھی ایران سے زائرین گئے ہیں کرونا وائرس پھیلانے کے لیے ۔
موصوف نے یہاں پر جو ایک بحث کی ہے کہ سائنس و مذہب میں فرق اور پھر کہا کہ مذہب کی تفسیر ہو سکتی ہے جبکہ سائنس یعنی علم کی تفسیر نہیں ہوسکتی پھر کہا اس لیے تفاسیر میں اختلاف پایا جاتا جبکہ سائنس یعنی علم ہمیشہ ثابت رہتا ہے اور پھر کہا کہ نیوٹن کا قانون ابھی تک ثابت ہے۔
کاش کہ یہ بات موصوف نے نہ کی ہوتی یہ وہ مقام ہے جہاں پر کنویں کے مینڈک والی مثال کاملا منطبق ہوتی هے ۔
.یہاں پر موصوف نےتین باتیں کی ہیں
1۔ سائنس یعنی علم 2۔ تفسیر 3۔مذہب
اور تینوں کی تعریف تک موصوف آشنائی نہیں رکھتے یہاں پر کچھ وضاحت کی ضرورت ہے ۔
اولا فقط سائنس(علم تجرباتی ) علم نہیں ہے بلکہ یہ علم کی ایک چھوٹی سی قسم ہے ۔
کیوں علم تجرباتی کو سائنس کہتے؟
اس کے پچھے ایک تاریخی داستان ہے کہ یہاں پر ہم اس کو ذکر نہیں کرتے فقط یہ بتاتے چلیں کہ علم مشترک لفظی ہے اور یہ چند معنوں میں استعمال ہوتا ہےاس لیے علم کی چند تعریفیں ہوئی ہیں کہ ان میں سے بعض کو یہاں پر مختصر ذکر کریں گے۔
1 ۔ انسان کا یقین جو واقع کے مطابق ہو اس کو علم کہتے ہے یعنی آپ کو جس چیز کا یقین ہے اور وہ آپ کا یقین واقع کے مطابق ہو بس آپ کو اس چیز کا علم ہے۔
2 ۔ قضایہ کا مجموعہ کہ جن کے درمیان میں مناسبت کو لحاظ کیا گیا ہو چاہے یہ قضایا شخصیہ ہی کیوں نہ ہوں ۔
جیسے علم تاریخ یا علم جغرافیہ یا علم رجال وغیرہ ۔۔۔۔
اس طرح کچھ فلسفی و منطقی تعرفیں ہیں کہ یہاں پر ذکر کرنا مناسب نہیں ہے ۔
3 ۔ قضایہ حقیقی کا مجموعہ کہ جو تجربہ حسی کے ذریعے سے ثابت ہو اس کو بھی علم کہتے ہی ۔
بس خود سائنس( یعنی علم تجرباتی) بھی علم کی ایک قسم نہ کہ مطلق علم، اور اسکے علاوہ کوئی چیز علم نہیں ہے یہ ایک جہالت محض ہے۔
بس اس طرح سے موصوف کا کہنا کہ مذہب اور علم میں فرق یہ اصلا غلط ہے چونکہ علم مذہب کو بھی شامل ہے ۔
دوسرا یہ کہنا کہ مذہب کی تفسیر ہو سکتی ہے اور علم کی نہیں ہوسکتی یہ بھی صراحا فاسد ہے۔
کیوں کہ تفسیر کہتے ہیں کسی عبارت یا متن کے اوپر سے پردہ اٹھانا اور اسکے ابهام کو دور کرنا اور اس کو روشن کرنا ، اور یہ تفسیر مذہب و سائنس ہر دو کی ہوسکتی ہے آیا سائنس پڑھانے والے اساتذہ اپنے شاگردوں کے لیے متون سائنسی کی وضاحت نہیں کرتے یا ان کو روشن نہیں کرتے یا ان کی شرح نہیں لکھتے یہی تو تفسیر ہے فقط فرق اتنا ہے کہ مذہب کے متون، الہی ہیں جو کہ بہت ہی گہرے و عمیق اور اس کی تہہ تک پہنچنا نہ بہت ہی مشکل ہے بلکه محال هے اس لیے اسکی تفسیر کرنے کے لئے مفسر کو اپنی توفیق کے مطابق سمجھ آتا ہے اور یہیں سے تفاسیر میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔
جبکہ علم تجرباتی کے متون سہل و آسان ہوتے ہیں اور ان کو سمجھنے میں کوئی اتنی زیادہ زحمت کی ضرورت نہیں پڑتی، اور دوسرا موصوف کا یہ کہنا کہ سائنس میں قانون قطعی ہوتے ہیں یہ بات خود سائنس سے موصوف کی نہ آگاہی کو ثابت کرتی ہے کیونکہ تمام علوم کے درمیان سب سے زیادہ تغییر پذیر علم ، علم تجرباتی(سائنس ) ہے ۔
میرے خیال سے موصوف اس سے غافل ہیں کہ پہلے سائنسدانوں کے مطابق عالم چار عناصر پر مشتمل تھا۔
1۔پانی 2 ۔ ہوا 3 ۔ زمین 4۔آگ
جبکہ موجودہ سائنسدانوں کے نزدیک نہ فقط یہ غلط ہے بلکہ وہ خود عنصر کو کئی اقسام میں تقسیم کرتے ہیں ۔
اس طرح ایک دوسری مثال پہلے والے سائنسدانوں کے نزدیک سورج زمین کے گرد چکر لگاتا ہے لیکن اب سائنسدانوں کی نظر میں برعکس ہے۔
بس وہ موصوف کا دعوی کہ سائنس صادق ہے و سیکولر ہے اس میں اختلاف نہیں پایا جاتا یہ ساری باتیں کہاں گئی یہ فقط دو مثالیں دی ہیں جبکہ اس طرح کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں ۔
ایک مہم مسئلہ کہ جس پر موصوف نے اپنی نظر کا اظہار کیا وہ ولایت فقیہ ہے اور اس مقام کے لیے ہم نے اس تحریر کے آغاز میں کنویں کے مینڈک کی مثال دی ہے ، چونکہ موصوف نے یہاں پر ایسی چیز کا انکار کیا جو سمندر کی طرح عظیم ہے لیکن چونکہ ولایت فقیہ کی ابجد سے واقف نہیں ہیں لہذا اس کا انکار کردیا اور ایسے شخص کی حکومت کا انکار کیا جس کی بصیرت کا دشمن اعتراف کرتا ہے اور جس نے اپنی جوانی سے لیکر آج دن تک اپنے دشمن کو ہر میدان میں منہ کی کھلائی هے ۔
مجھے افسوس ہوتا ایسے نام نہاد دانشوروں پر جو ٹرمپ جیسے پاگل کے تو نغمہ گاتے گاتے تھکتے نہیں لیکن اپنے عظیم اسلامی راہنما جو حکیم و عاقل و شجاع واہل بصیرت و تمام اسلامی ممالک کو نجات کی طرف لے جانے والے کے اوپر اپنی غلیظ زبان چلاتے ہیں اور نور خدا کو پھونکوں کے ذریعے بجھانے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ ان کو معلوم نہیں ہے کہ اس نور کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالی نے لیا ہے ۔
اپنی تحریر میں موصوف نے یوکرین کے جہاز کا تباہ ہونے میں بھی ولی فقیہ کو قصور وار قرار دیا هے اور پھر کہا کہ خدا پاکستان کو ایسے ولی فقیہ سے محفوظ رکھے ۔
میں اس جناب والا سے پوچھنا چاہتا ہوں پہلی بات تو یہ ہے کہ ایران کے اسلامی نظام کے متعلق آپ اتنا جانتے ہیں کہ آپ کو یہ بھی معلوم نهیں !
کہ ولی فقیہ و موجودہ حکومت کہ جس کے صدر حسن روحانی ہیں دو جدا چیزیں ہیں انتظامی امور حسن روحانی کی حکومت نے انجام دینے ہیں نہ کہ ولی فقیہ نے جنگی حالات میں جہازوں کی پروازیں بند کرنے کی ذمہ داری حکومت پر ہے نہ ولی فقیہ پر اور دوسرا پھر حکومت میں بھی اس کے مربوطہ وزیر کی ذمہ داری ہے اگر اس نے پروازیں بند نہیں کی تو اس کا گناہ نظام پر نہیں آتا اور وہ جہاز بھی غلطی سے نشانہ بنا ہے جیسا کہ خود موصوف نے بھی ایسا کہا ہے۔
جس ملک میں ولی فقیہ کی حکومت ہو اور جس ملک میں ولی فقیہ کی حکومت نہ ہو اس میں فرق یہ ہوتا ہے کہ ایران نے غلطی سے یوکرین کا جہاز تباہ کیا چوتھے دن تسلیم کر لیا اور معذرت کی جب کہ آمریکہ نے 20 سال پہلے ایران کا مسافر جہاز جان بوجھ کر تباہ کیا اور ابھی تک اپنی غلطی تسلیم نہیں کی بلکہ بش نے ٹی وی چینل پر آکر کہا آمریکہ کبھی بھی ایران سے معذرت نہیں کرے گا آپ کے نزدیک یہ تو جدید تعلیم سے آراستہ ہیں پھر کلام جہالیت کیوں؟
جس ملک میں ولی فقیہ ہے وہ تو چالیس سال سے عزت کی زندگی گزار رہے ہیں انہوں نے جو پیشرفت کی ہے وہ ہمیں تو ستر سال سے خواب میں بھی نصیب نہیں ہوئی ۔
ان کو تو مودی نہیں ڈراتا بلکہ وہ تو آمریکہ کے ٹھکانوں پر بھی کامیاب میزائل حملے کرتے ہیں ۔
وہاں تو امنیت سے غیر مسلم بھی محفوظ ہیں لیکن ہمارے ہاں تو چھوٹی سات سال کی بچیوں کی بھی عزت و جان محفوظ نہیں ہے ۔
وہاں تو بجلی ، گیس ، آٹا ، چینی کسی چیز کا بحران نہیں درحالیکہ وہ چالیس سال سے پابندیوں میں ہیں اور ہمارے پاس کھانے کے لیے آٹا نہیں ہے ۔ وہاں تو ساری پارلیمانیٹ پی ایچ ڈی ڈاکٹرز هیں اور همارے پاس تو وزیر تعلیم بھی انگوٹھا مار گزرے هیں ۔
اتنا فرق کیوں ہے؟
جب کہ ہم تو 70 سال پہلے آزاد ہوے هیں اور وهاں تو انقلاب کو آئے هوئے فقط 40 سال ہوے هیں ہم نے تو پوری دنیا کے ساتھ 8 سال جنگ نہیں لڑی انہوں نے تو 8 سال عراق کے ساتھ جنگ لڑی جسکے پچھے ساری دنیا تھی ۔
ہم پر تو کوئی پابندی نہیں ہے ان پر تو پابندیاں ہیں ۔
آئے نام نہاد دانشوروں یہ سب اس لیے ہے کہ ہمارے پاس ولی فقیہ نہیں ہے جبکہ ان کے پاس یہ نعمت خدا موجود ہے ۔
بات رہی کرونا وائرس کے انکار کی کہ ایران کے ذمہ دار طبقہ نے شروع میں کرونا وائرس کے وجود کو قبول نہیں کیا تو یہ دعوی بھی موصوف کے بند کمرے کے اندر اپنی من گھڑت باتیں گھڑنے کا نتیجہ ہے ،
جو بغیر کسی معتبر ذرائع کے اور بغیر معلومات کے خود سے بنائے گئے ۔
درحالیکہ کسی بھی ذمہ دار نے وجود کرونا کا انکار نہیں کیا بلکہ پوری دنیا میں جنہوں نے اس مسئلہ کو جدی لیا وہ ایرانی انتظامیہ ہے لیکن یہ کہ آیا یہ حیوانوں سےانسان میں منتقل ہوا ہے اس کو کوئی عاقل قبول نہیں کرتا۔
کیوں نہیں کرتا؟ اس کی وجوہات ہم نے اپنی سابقہ تحریر میں تمام دلائل کے ساتھ وہاں پر ذکر کی ہیں تکرار غیر نافع ہے۔
موصوف نے اپنی تحریر میں کہا کہ کرونا وائرس کو باقاعدہ ماھان ائیر لائن کے ذریعے چین سے لایا گیا اور کہا کہ یہ ائیر لائن سپاہ کی ہے اور انہوں نے اس کی پروازیں بند نہیں کی ۔
یہ بات 180 درجہ برعکس ہے اولا تو ماھان ائیر لائن سپاہ کی نہیں ہے بلکہ نیم سرکاری ائیر لائن ہے دوسری بات یہ ہے کہ سب سے پہلے جنہوں نے پروازیں بند کرنے کی آواز اٹھائی ہے وہ سپاہ تھی ، اور ساری دنیا جانتی ہے کہ موجودہ ایرانی حکومت اصلاح طلب طبقہ ہے اور وہ انقلابی نہیں ہیں وہ بھی خود موصوف کی طرح عاشق غرب ہیں اور پروازیں بند کرنا ان کی ذمہ داری تھی نہ سپاہ کی !!!!
اور دوسرا اگر کوئی چین سے ان دنوں میں ایران آیا بھی ہے تو اس کو پہلے تهران میں قرنطینہ کے مرحلے سے گزرنا پڑا ہے۔
اگر کسی لکھاری کو اتنا بھی معلوم نہ ہو تو سمندر کے بارے میں رائے دینے سے بہتر ہے پہلے اپنے کسی پڑوسی سے ہی پوچھ لے تاکہ جہالت کو لوگوں میں تقسیم کرنے سے بچ جائے ۔
موصوف کا ایک جملہ جو آپ تمام سن کر تعجب کریں گے وہ یہ تھا کہ انہوں نے بسیج فورس کو نیم خواندہ کہا اب یہاں پر میں موصوف کو تھوڑا بسیج کے کارناموں سے آگاہ کرتا ہوں کہیں موصوف اس دنیا سے جہل ہی نہ چل بسیں ۔
جنہون نے امریکہ کے ڈراون طیارے کو اپنی سرحد میں سالم اتار لیا تھا وہ سب نیم خواندہ بسیجی تھے۔
ایرانی وہ طیارہ جو آمریکہ کے بیڑہ کی نزدیک سے تصاویر لے کر آیا تھا جس تصاویر کو موصوف کے علاوہ ساری دنیا دیکھا ہے اس طیارے کو بنانے والے نیم خواندہ بسیجی ہیں ۔
عراق اور شام میں جنہوں نے داعش کو نابود کیا اور امریکہ و سعودی عرب و اسرائیل کے تمام منصوبوں کو خاک میں ملایا وہ سارے نیم خواندہ بسیجی تھے ۔
ایران سے شام میں داعش کے ٹھکانوں پر کامیاب میزائل حملے کرنے والے سارے افراد نیم خواندہ بسیجی تھے۔
امریکہ کا مہنگا ترین جہاز کو اپنی سرحد پر گرا دینے والے سب جوانان نیم خوانده بسیجی تھے ۔
امریکی ڈیلٹا فورس کو خلیج فارس میں زندہ پکڑنے والے سب کے سب نیم خوانده بسیجی تھے۔
اور اس طرح کے ہزاروں کارنامے اور ، کہ جن کا ذکر کرنا یہاں پر گنجائش سے خارج ہے ۔
یهاں پر ہم نے موصوف حمزہ ابراھیم کی چند جہل کنندہ باتوں کی برسی کی اور ہمیں اسکی تحریر میں سوائے جہالت ،تعصب، کم ظرفی ،بے بنیاد ہوائی دعٰووں کے علاوہ کچھ نظر نہیں آیا ۔
اور ہمارے ملک کی سب سے بڑی مشکل یہی ہے کہ استعماری طاقتوں کے فضلا خور چیلے میڈیا پہ آکر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور عوام کو غلامی کے درس دیتے ہیں اور ان پڑھ لوگ وزیر تعلیم بن جاتے ہیں لالچی و خائن وزیر مال بن جاتے ہیں سب سے بڑے ڈاکو و چور وزیر اعظم بن جاتے ہیں۔
جس ملک کے اندر دنیا کے عظیم ترین علمی ،بصیرت کے شاہکار ،شجاع،سیاست مدار ، اھل تقوی اور جس کی صفات کی پوری دنیا چاهے دوست هو یا دشمن اعتراف کرتی ہو ایسے رهبر کے خلاف کنویں کے مینڈک آکر اپنی رائے دیں ایسے ملک کے لیے ترقی کرنا کہیں دشوار ہو جاتا ہے۔
یہ فضلا خور لوگ اس وقت آکر رھبر عظیم پر حملہ کرتے ہیں جب انکے باپ امریکہ و اسرائیل کو رهبر معظم سید علی خامنہ ای کی بصیرت عذاب میں ڈال دیتی ہے پھر یہ چیلے کنویں سے نکل کر سمندر کے متعلق اظہار نظر کرنے نکل پڑتے ہیں ۔
والسلام
الھم صلِ علیٰ محمد و آلِ محمد
(حصہ دوم)
تحریر: تابعدار حسین
جیسا کہ سابقہ تحریر میں بیان ہوا ہے(سابقہ تحریر حاصل کرنے کیلے یہاں کلیک کریں) آج کارواں کاملا بدون متاع باقی رہ گیا ہے اور اُن کی نظریں دوسروں کی متاع پہ ہیں کہ شاید دوسروں کی متاع ہمیں نجات دلائے اُدھر سے ستر سالہ قومی تجربہ بتاتا ہے کہ دوسروں کی متاع فقط اپنے صاحب کو فائدہ دیتی ہے ۔
ایک عظیم متاع جو ہم نے کھو دی ہے جو ہماری شناخت و تشخص تھی اور آج ہمارا معاشرہ اس سرمایہ سے خالی ہے اور اُس ابزار تشخص سے محروم ہے وہ ہماری قومی زبان ہے ۔
آج ہم زمین پہ شاید اُن نادر اقوام میں سے ہیں جنکے ملک میں اُنکی اپنی زبان قانونی طور پر و عملی طور پر نافذ نہیں ہے اور یہ امر قوموں کے زوال کی علامت ہے البتہ حکمران طبقہ جوکہ مغرب کے غلام ہیں ، ظاہری طور پر (اُردو ہماری قومی زبان ہے) کی رٹ لگاتے ہیں لیکن عملا مغرب نواز ہیں اور انکے دفتروں میں تمام دفتری امور انگریزی میں انجام پاتے ہیں حتیٰ ان کی شخصی زندگی تک غلامی نے سرایت کی ہوئی ہے اور پھر اس غلامی نے صاحب اقتدار طبقہ سے عوام میں سرایت کی ہے ، لوگوں کا دین تو ویسے حکمرانوں کا دین ہوا کرتا ہے ؛ دین الناس علی ملکوہ اور یہ غلامی ایک بڑی زنجیر ہے جس کو توڑنے میں ہی قوم کی نجات ہے وگرنہ ہمیشہ غلام ہی رہیں گے ۔
القصہ! ابدی موت مرجانا غلام قوموں ہی کا مقدر ہوتا ہے
نے نصیب مارو کثردم نے نصیب دام دو
ہے فقط محکوم قوموں کیلئے مرگ ابد!
آج ہمارے تمام تعلیمی اداروں کا نصاب انگریزی زبان میں ہے اور ان تعلیمی اداروں میں طالب علموں کو یہ باور کرایا گیا ہے کہ جو انگریزی زبان پڑھنا ،لکھنا سیکھ جائے و ہ سب سے زیادہ پڑھا لکھا و عالم انسان ہے ۔
جبکہ ناداں یہ نہیں جانتے کہ زبان اور علم کے درمیان فرق ہے ہر وہ انسان جو زبان سیکھ جائے وہ عالم نہیں کہلاتا بلکہ علم و زبان دو جدا چیزیں ہیں ۔
آزادی افکار ہے ان کی تباہی
رکھتے نہیں جو فکر و تدبر کا سلیقہ
یہ وہی نقطہ انحراف ہے جہاں سے ٹرین کا پٹری سے کانٹا بدلا گیا اور ٹرین کو کہیں اور موڑ دیا گیا اور ہم ناداں یہ سمجھ بیٹھے کہ سَر نے ہماری تقدیر بدل دی ہے اوراب ہم ترقی کی طرف جارہے ہیں جبکہ دشمن نے بہت ہی آسانی سے ہمارا رُخ زوال کی طرف پھیر دیا اور ہم نے احساس تک نہیں کیا ، اس طرح سے کہ کارواں کا یہ رُخ پھیرنا کارواں کو اتنا پسند آیا کہ کارواں کے دل سے احساس زیاں تک نکل گیا ۔
وائے ناکامی متاع ! کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
اور آج کارواں کی یہ حالت ہے کہ تمام تر متاع لٹانے کے باوجود احساس زیاں پیدا نہیں ہوا ، بیدار دشمن نے ہمیں سُلا کے رکھ دیا اور اب جو بیدار شخص بھی اس کارواں کو جگانا چاہتا ہے وہ اس کارواں کو بُرا لگتا ہے اور دشمن یہی چاہتا تھا کہ یہ کارواں سوتا ہی رہے اور دشمن کا یہ حربہ کارآمد ثابت ہوا ۔
جب ہم نے یہ متاع لٹا دی تو آج ہم اس قدر اندر سے خالی و کھوکھلے ہو گئے کہ ہر چیز میں دوسروں کے محتاج و غلام بن کے رہ گئے اور افسوس کہ ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ دنیا میں ہم اس قدر گر گئے کہ آج2024 میں پاکستانی سبز پاسپورٹ ارزش و قیمت کے لحاظ سے دنیا میں نیچے سے پانچویں نمبر پر آیا ہے یہ حالت ایک دفعہ سے نہیں ہوئی بلکہ آہستہ آہستہ اس حالت تک لایا گیا ، لیکن جس قوم کے اندر سے روح نکال دی گئی ہو ، اُس کی مثال اُس بدن سی ہے کہ جس کو سُن کر کے اُس کے اندر سے گرُدہ یا کوئی اور عضو نکال دیا جاتا ہے اور اُس بدن کو احساس تک نہیں ہوتا ۔
تھا جو ’نا خوب‘ بتدریج وہی
’خوب‘ ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر ! (2)
1۔ (سلطنت، خضر راہ ، بانگِ درا)
2 ۔ (تن بہ تقدیر، ضرب کلیم)
بنیان مرصوص اسلامی فکری مرکز
(حصہ اول)
تحریر : تابعدار حسین
ایک چیز جس کا ہمیشہ افسوس رہا ہے اور اس کے بارے میں ہمیشہ ناقابل تلافی غفلت کا احساس رہاہے اور شاید ہر منصف و زندہ ضمیر انسان ، زندگی میں ضرور اس احساس زیاں کی طرف متوجہ ہوتا ہے کہ ہم نے بحثیت قوم باقی سرمایہ کی طرح اپنے گراںبھا سرمایہ قومی زبان کے ساتھ کتنا ظلم کیا ہے ، ممکن ہے بعضوں کو یہ احساس زیاں بھی نہ ہو ۔
وائے ناکامی! متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں پر قوم وملت کو کارواں کے ساتھ تشبیہ دی ہے ، ملت وقوم جو ایک کارواں کی مانند ہے اس کی متاع( سرمایہ) لوٹتا رہا لیکن اس قوم وملت نےنہ فقط اپنے سرمایہ کو نہیں بچایا بلکہ اُنکو احساس زیاں تک نہیں ہوا کہ ہمارا کچھ لُٹ رہا ، احساس زیاں اُس وقت ختم ہوتا ہے جب انسان اپنے کاموں سے راضی ہو اور وہ یہ احساس رکھتا ہو کہ میں جو کر رہا ہوں وہ کاملا درست ہے ، تب انسان کے دل سے احساس زیاں ختم ہوجاتا ہے ۔
ہم نے بحثیت قوم اپنی قومی زبان کو ترک کیا اور ہمیں احساس زیاں تک نہیں ہوا کیونکہ ہمارے اندر یہ احساس ڈالا گیا کہ اپنی قومی زبان کو ترک کیا جانا وقت کی ضروت ہے اور اسی میں مصلحت ہے اور اس فکر کو ہمارے نصاب میں شامل کردیا گیا ، اس ںظریہ کے مبلغین نے بہت سستے داموں یہ سودا کیا کیونکہ ایک طرف سے پورے کارواں کی متاع دی اور دوسری طرف سے فقط (سَر) کا لقب ملا اور سلارِ کارواں اتنے ناداں کہ وہ سَر کا لقب ملنے پر خوشیوں سے جھوم اُٹھے اور بعد میں اِنکے آنے والے پیروان تو بدون لقب بھی راضی رہے اور اس طرح ۔۔۔۔
وائے ناکامی! متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
آج کارواں کاملا بدون متاع باقی رہ گیا اور اُن کی نظریں دوسروں کی متاع پہ ہیں کہ شاید دوسروں کی متاع ہمیں نجات دلائے اُدھر سے ستر سالہ قومی تجربہ بتاتا ہے کہ دوسروں کی متاع فقط اپنے صاحب کو فائدہ دیتی ہے ۔
تف مے پہ جو سنبھلے ہوئے انساں کو گرا لےوہ مے تھی ترے خم میں جو گر توں کو سنبھالے(حصہ دوم حاصل کرنے کےلئے اس لینک پر کلیک کریںبنیان مرصوص اسلامی فکری مرکز