ش | ی | د | س | چ | پ | ج |
1 | 2 | 3 | 4 | 5 | ||
6 | 7 | 8 | 9 | 10 | 11 | 12 |
13 | 14 | 15 | 16 | 17 | 18 | 19 |
20 | 21 | 22 | 23 | 24 | 25 | 26 |
27 | 28 | 29 | 30 | 31 |
(حصہ اول)
تحریر : تابعدار حسین
ایک چیز جس کا ہمیشہ افسوس رہا ہے اور اس کے بارے میں ہمیشہ ناقابل تلافی غفلت کا احساس رہاہے اور شاید ہر منصف و زندہ ضمیر انسان ، زندگی میں ضرور اس احساس زیاں کی طرف متوجہ ہوتا ہے کہ ہم نے بحثیت قوم باقی سرمایہ کی طرح اپنے گراںبھا سرمایہ قومی زبان کے ساتھ کتنا ظلم کیا ہے ، ممکن ہے بعضوں کو یہ احساس زیاں بھی نہ ہو ۔
وائے ناکامی! متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں پر قوم وملت کو کارواں کے ساتھ تشبیہ دی ہے ، ملت وقوم جو ایک کارواں کی مانند ہے اس کی متاع( سرمایہ) لوٹتا رہا لیکن اس قوم وملت نےنہ فقط اپنے سرمایہ کو نہیں بچایا بلکہ اُنکو احساس زیاں تک نہیں ہوا کہ ہمارا کچھ لُٹ رہا ، احساس زیاں اُس وقت ختم ہوتا ہے جب انسان اپنے کاموں سے راضی ہو اور وہ یہ احساس رکھتا ہو کہ میں جو کر رہا ہوں وہ کاملا درست ہے ، تب انسان کے دل سے احساس زیاں ختم ہوجاتا ہے ۔
ہم نے بحثیت قوم اپنی قومی زبان کو ترک کیا اور ہمیں احساس زیاں تک نہیں ہوا کیونکہ ہمارے اندر یہ احساس ڈالا گیا کہ اپنی قومی زبان کو ترک کیا جانا وقت کی ضروت ہے اور اسی میں مصلحت ہے اور اس فکر کو ہمارے نصاب میں شامل کردیا گیا ، اس ںظریہ کے مبلغین نے بہت سستے داموں یہ سودا کیا کیونکہ ایک طرف سے پورے کارواں کی متاع دی اور دوسری طرف سے فقط (سَر) کا لقب ملا اور سلارِ کارواں اتنے ناداں کہ وہ سَر کا لقب ملنے پر خوشیوں سے جھوم اُٹھے اور بعد میں اِنکے آنے والے پیروان تو بدون لقب بھی راضی رہے اور اس طرح ۔۔۔۔
وائے ناکامی! متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
آج کارواں کاملا بدون متاع باقی رہ گیا اور اُن کی نظریں دوسروں کی متاع پہ ہیں کہ شاید دوسروں کی متاع ہمیں نجات دلائے اُدھر سے ستر سالہ قومی تجربہ بتاتا ہے کہ دوسروں کی متاع فقط اپنے صاحب کو فائدہ دیتی ہے ۔
تف مے پہ جو سنبھلے ہوئے انساں کو گرا لےوہ مے تھی ترے خم میں جو گر توں کو سنبھالے(حصہ دوم حاصل کرنے کےلئے اس لینک پر کلیک کریںبنیان مرصوص اسلامی فکری مرکز