سوال: ایک ڈرائیور کسی کمپنی کے لئے اس کا سامان لے کر جاتا ہے اور اسی وقت ایک دوسرا شخص بھی اسے اپنا سامان دیتا ہے تاکہ کمپنی کے سامان کے علاوہ اسے بھی لے کر جائے اور کرایہ وصول کرے لیکن کمپنی یہ بات قبول نہیں کرتی تو کیا مذکورہ کرایہ اشکال رکھتا ہے؟
جواب: اگر گاڑی کمپنی کی ملکیت ہو تو ڈرائیور کا عمل جایز نہیں اور گاڑی کے غاصبانہ استعمال کی بابت کمپنی کا حق ادا کرے لیکن اگر گاڑی خود ڈرائیور کی ملکیت ہو اور کمپنی کے ساتھ سامان لانے اور لے جانے کا معاہدہ کیا ہو تو اگر مذکورہ عمل معاہدے سے منافات نہ رکھتا ہو تو وصول کیا گیا کرایہ کوئی اشکال نہیں رکھتا۔
leader_ahkam_@
بنیان مرصوص اسلامی فکری مرکز
تاریخ
26 ربیع الاول 1442 ھ ق
12 نومبر 2020
تحریر ؛ تابعدار حسین
قدیم زمانے میں دشمن کی پهچان آسان تھی اور اسی طرح دشمن کے تمام هتھیاروں کے بارے میں معلومات لینا بھی کوئی مشکل کام نهیں تھا اور بیشتر جنگیں بھی آمنے سامنے هوا کرتی تھیں اور اسی طرح هر دو طرف سے لڑنے والے فریق بھی اُس وقت کے قواعد و ضوابط کے پابند هوا کرتے تھے مگر بهت کم ایسے نمونه تاریخ میں ملتے هیں جو بهت هی رذیل و پست تھے لیکن بیشتر قوانین کی پاسداری کرتے تھے ، البته یه قوانین اُن کی غیر منطقی عقلوں کی نمائندگی کرتے تھے لیکن جو بھی تھا اس کے پابند هوا کرتے تھے ، همیں تاریخ میں بهت سے ممالک کے درمیان ، اسی طرح قوم و قبائل کے درمیان حتی مختلف ادیان کے درمیان جنگیں ملتی هیں ، جس میں ایک چیز سب کے نزدیک ثابت هے۔
اور وه یه هے که هر فریق کو معلوم هوا کرتا تھا که میرا دشمن کون هے اس کے پاس کیا هتھیار هے اس نے کس مقام پر کس هتھیار کے ساتھ حمله کرنا هے حتی یه روش پندرویں و سولهویں صدی میلادی تک بھی آسانی کے ساتھ نظر آتی هیں ، اگر هم دو جملوں میں اِن مطالب کو بیان کرنا چاهیں تو کہہ سکتے هیں که درست هے وه جنگی تدابیر استعمال کرتے تھے لیکن اُس زمانه میں جنگی منافقتیں نهیں تھیں اگر تھیں تو بهت کم ، اُسکی وجه یه هے که وه اِس پیشرفته دور میں زندگی نهیں کر رهے تھے ۔
لیکن آج کا زمانه اُس زمانه کے ساتھ فرق کرتا هے ، آج کا دشمن دکھائی نهیں دیتا ، اُس کے هتھیار کو دیکھنے کے لیے غیر معمولی آنکھوں کی ضرورت هے ، چونکه یه معمولی آنکھوں سے نظر آنے والے نهیں هیں ، آج کا انسان جس دشمن کے خلاف گلی ، کوچوں میں نعرے لگا رها هوتا هے ، اُسی کے گھر میں دشمن کا فحاشی پھیلانے والا هتھیار موجود هوتا هے اور اِس کو معلوم تک نهیں هوتا ، یا یه اِس کو اصلا دشمن کا هتھیار هی نهیں سمجھتا بلکه کهتا هے که میں نے تو اس کو خبریں سننے کے لیے رکھا هوا هے یا کهتا هے که میں نے اِس پر دینی چینل چلانے کے لیے رکھا هوا هے ، هم بھی حُسن ظن رکھتے هوئے پوچھنا چاهتے هیں ، اگر آپ نے فقط خبروں کے لیے رکھا هوا هے تو بس اِس کو چھت په کیوں رکھا هوا هے ، کیا چھت په زیادی خبریں سناتا هے ؟ نه چھت پر غربی و عبری و عربی چینل زیاده دیتا هے ، درحقیقت آج کا دشمن اپڈیٹ هے اور اُس کو پته هے کونسی جگه پر اور کس هتھیار کے ساتھ حمله کرنا هے ، لیکن دوسری طرف سے بصیرت کی ضرورت هے جس کی شدت کے ساتھ اسلامی معاشرے میں کمی هے ۔
یهاں پر هم نے یه تو ایک ساده سی مثال دی هے جو که آج کے دور میں پُرانی شمار هوتی هے اور اب بات یهاں سے بڑھ چکی هے ، اب دشمن نے اپنے هتھیاروں کو اُمت اسلامی کے هاتھوں میں پهنچا دیاهے اور ساتھ هی ذهنوں کو مفلوج کر دیا هے اور هم دشمن کے هتھیار سے اپنے اُوپر حمله کرتے هیں اور خود کو ، اپنے عقائد کو ، اپنے افکار کو زخمی کرتے هیں ، اور یه ایسا نهیں که همیں معلوم هوتا هے اور هم جان بوجھ کر اپنے عقائد ، افکار و سوچوں کو زخمی کرتے هیں ، بلکه یه سب کچھ هم نه جانتے هوے اور لاعلمی میں انجام دیتے هیں ، اسی لیے شروع میں کها که آج کا دشمن و اُس کا هتھیار نامرئی و نظر نه آنے والا هے ، لهذا اُمت اسلامی کے اندر شعور ، بصیرت و بیداری کی ضرورت هے ۔
چونکه هماری یه تحریر آج کی مناسبت کے حوالے سے هے لهذا جاتے هیں اپنے اصلی موضوع کی طرف ، البته هم آج کی مناسبت کے حوالے سے جو مطلب بیان کرنے جارهے هیں اگر مبالغه نه هوتو اُردو زبان میں بهت کم بیان هوا هے ، اور اس مطلب کا شروع میں بیان شده مقدمه کے ساتھ گهرا ربط هے بس وه مطالب بھی ذهن میں رهے ۔
سب سے پهلے یه بتاتے چلیں که آج یعنی 26 ربیع الاول کو حضرت امام حسن علیه السلام و معاویه کے درمیان صلح کا عمل انجام پایا ، جو تاریخ کی تلخیوں میں سے ایک ایسی تلخی هے جس کے انجام پر امام حسن علیه السلام کو بهت رنج و تکلیف برداشت کرنا پڑی ، اور یه مناسبت صلح امام حسن علیه السلام کے نام سے مشهور هے ۔
اس صلح نامه کے بهت سے پهلوں هے جن پر بزرگان کی متعدد کتابیں لکھی جا چکی هیں اور اس کے مختلف پهلوں کو بیان کیا گیا هے اور هم یهاں پر نهایت هی اختصار کے ساتھ ایک پهلو کو بیان کریں گے ۔
هم نے آغاز میں بیان کیا هے که آج کا دشمن اسلام ، اسلام کے ساتھ دشمنی میں بهت آگے تک جا پهنچا هے اور جن هتھیاروں سے مسلمانوں کے خلاف میدان میں نبرد آزما هے اُن میں بهت سے نامرئی هتھیار هیں ، جن کو سمجھنے کےلیے ایک عام انسان قاصر هے اور یه خواص کی زمه داری هے که وه عوام کو اِن سے آشناء کریں ۔
اُن هتھیاروں میں سے جدید ترین هتھیار جو دشمن استعمال کر رها هے وه مختلف دینی ، سماجی ، سیاسی، معاشرتی و فرھنگی کلمات و الفاظ ( یعنی اصطلاحات ) کا اسلامی معاشرے میں مسلمانوں کی زبانوں سے غلط استعمال کروانا هے ۔
ان الفاظ کا غلط معنی دشمن کی طرف سے اسلامی معاشروں میں پھیلایا جا رها هے اور افسوس کے ساتھ مسلمان اس المیه کی طرف متوجه نهیں هے ۔
هم یهاں پر اُن میں سے چند اصطلاحات کی طرف اشاره کرتے هیں جو که درجه ذیل هیں ۔
آزادی
اسلام بھی آزادی کا قائل هے بلکه تمام موجوده و غیر موجوده ادیان سے زیاده آزادی کو بیان کیا هے۔
لیکن دشمن نے اسی مفھوم کے معنی کو توڑ مروڑ کر آج اسلامی دنیا میں آزادی کا نعره لگایا هے لیکن کون سی آزادی؟ مغرب دنیا نے مسلمانوں کی طاقت و قوت کو ختم کرنے کے لیے غلط معنی کے ساتھ اسلامی معاشره میں داخل کیا هے ، اور کها آزادی یعنی بے دینی ، انسان آزاد هے یعنی انسان حیوان هے جو مرضی کرتا رهے اس کے لیے کوئی قانون و شریعت نهیں هونی چاهیے چوں انسان آزاد هے ، اور اس نعره کی اس طرح سے اسلامی ممالک میں تبلیغ کی که پاکستان جیسے اسلامی ملک کے دارالحکومت میں میرا جسم میری مرضی کے نعره حکومت و نام نهاد فضله خور میڈیا کی سرپرستی میں لگاے گئے اور یه جن لوگوں نے آکر روڈوں پر نعره لگاے یه کوئی غیر مسلم نهیں تھے بلکه اسلامی ریاست میں رهنے والے مسلمانوں کے گھروں سے آئے تھے ، بس اسلامی معاشرے میں یه نامرئی هتھیار اثر کرتا هے اور یه هتھیار ایٹم بمب سے زیاده خطر ناک هے ۔
در حالیکه اسلام نے آزادی کو اس معنی میں استعمال نهیں کیا بلکه اسلام کی آزادی ، انسان کو سب سے پهلے اپنے نفس کے شھوانی زندان سے آزاد کرتی هے ، اسلام میں آزادی یعنی غلامانه زندگی جرم هے ، یعنی عزت کی موت کو ذلت کی زندگی پر ترجیح دینا ، آزاد انسان یعنی خوددار ، آزاد یعنی باعفت ، آزاد یعنی باشرافت ، آزاد یعنی با عزت ۔۔۔
اب دشمن نے اس مقدس کلمه کو غلط معنی کے ساتھ اس طرح داخل کیا که اس نے سب سے پهلے لا شعورا مسلمانوں کے عقائد پر اثر انداز هوا اور پھر عملی زندگی میں ۔
وطن
اسی طرح لفظ وطن کو غلط معنی کے ساتھ استعمال کیا ، اگر ملک خداداد میں کوئی مصلح آے جو فساد کو ملک سے ختم کرنا چاهتا هو ، فورا اس پر هجوم هوتا هے که یه تو وطن کے ساتھ خیانت کرنا چاهتا هے ، یه تو آئین کی مخالفت کرنا چاهتا هے ، مثلا اگر آپ نے ملک میں ولایت کی بات کی تو فورا آپ کو اپنے هی کهیں گے بات تو آپ کی ٹھیک هے لیکن همارا أئین بھی تو هے بس مشکل هے یه بات کرنا ، جبکه یه دونوں موضوع بالکل جدا هیں ، ایسا کیوں کها جاتا هے اس لیے که یه فکر دشمن کی طرف سے اسلامی معاشرے میں داخل کی گئی هے اور پھر اس کو رائج کیا گیا اور اب یه سب کا عقیده بن گیا هے اور نصف صدی گزر گئی ملک میں اس بے شعوری نے ترقی کے راسته کو روکا هوا هے ۔
ولایت
اسی طرح ولایت کا غلط معنی رائج کیا گیا هے البته اس میں تو پوری ایک داستان هے ، اس عظیم قرآنی و الهیٰ اصطلاح کے ساتھ وه کام کیا گیا که آج همارے ملک میں وه طبقه که جو جهالت کی عوج پر پهنچا هوا هے وه ولایت کے ٹھیکه دار بنے هوے هیں اور جو ولایت کا معنی کرتے هیں ، پوری تاریخ میں اس مقدس اصطلاح کے ساتھ ایسا ظلم نهیں هوا ، اور اگر کوئی مصلح آکر اس تحریف سے پرده اُٹھانے کی کوشش کرے تو سب هاتھ دھو کر اُس کے پچھے بهتان و تهمت و دشنام کا سلسله شروع کر دیتے هیں ، سب سے بڑی تهمت جو لگائی جاتی هے وه یه که یه دشمن علیؑ هے اور اس طرح سے چُپ کرانے کی کوشش کی جاتی هے اور بهت سارے چپ هو بھی جاتے هیں ، اب یه فکر کس نے پیدا کی ، که جو بھی ولایت کو صیح معنوں میں پیش کرے اس کو دشمن علیؑ کهه کر چپ کرا دی جاے ؟ جی اس فکر کی کاشت برطانیه سے هوئی هے اور دشمن نے داخل کیا هے، اور بعض نادان اسکو مومنین کے خلاف استعمال کرتے هیں ۔
اسی طرح اگر کچھ انقلابی جوان معاشره میں امر بالمعروف و نهی عن المنکر انجام دے رهے هوں تو اُن کے اُوپر شدت پسندی کے فتوے لگاے جاتے هیں ، اور کهتے هیں یه شدت پسند هیں ، اس طرح سے اُن کو بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی هے تاکه لوگوں کے ذهن میں یه بات راسخ هوجاے که واقعا یه شدت پسند هیں ، جب کسی کے بارے میں ایسی فکر پیدا هو گی تو کون حاضر هے که جو ان کی بات سنے ، بالآخر یه شدت پسندی کی اصطلاح کو ایک واجب و نیک کام کے مقابلے کس نے لایا ؟ کس نے یه فکر بنائی که جو بھی امر بالمعروف کرے وه شدت پسند هے؟ یه دشمن کا هتھیار هے جو مسلمانوں کے هاتھوں میں دیا گیا هے جو مسلمان ایک دوسرے کے خلاف چلا رهے هیں ۔
صلح امام حسن علیہ السلام
اُنهی اصطلاحات و الفاظ میں سے ایک صلح امام حسنؑ هے که جس کو اپنے ذاتی مقاصد حاصل کرنے کےلیے، اپنی جماعت کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے ، یا اپنی بے کفایتی و بزدلی کو چھپانے کے لیے استعمال کیا جاتا هے اور اپنے کاموں کی توجیه پیش کرنے کے لیے صلح امام حسنؑ کا سهارا لیا جاتا هے ، اور کها جاتا هے امامؑ نے بھی تو معاویه کے ساتھ صلح کی تھی در حالیکه آج کے حالات و اُس زمانه کے حالات کاملا مختلف هیں ، اُس زمانه کے شیعه کی طاقت میں اور آج کے شیعه کی طاقت میں زمین و آسمان کا فرق هے ۔
بعض صلح امامؑ کو غلط معنی میں لاشعوری طور پر استعمال کرتے هیں اور بعضوں کو معلوم نهیں هوتا که اس طرح کی باتیں دشمن کی ایماء پر اُن سے کرائی جا رهی هیں ۔
اسی مطلب کے متعلق رهبر معظم حفظه الله سے سوال کیا گیا که کیا امکان هے که صلح امامؑ آج کے دور میں تکرار هو ؟ رهبر معظم حفظه الله نے فرمایا ؛
امروز دشمن قادر نیست، امروز آمریکا و بزرگتر از آمریکا به برکت ملت هوشیاری مثل ملت ایران، قادر نیستند بر دنیای اسلام امروز حادثهای مثل حادثۀ صلح امام حسن (ع) را تحمیل کنند؛ دشمن اگر خیلی فشار بیاورد، حادثۀ کربلا اتفاق خواهد افتاد ۔
ترجمه
آج دشمن اتنا طاقتور نهیں هے که دنیا اسلام پر واقعه مانند صلح امام حسنؑ کو تکرار کرے ، اگر دشمن نے بهت دباؤ ڈالا تو ، کربلا برپا هو گی ۔
لهذا ایسا نهیں هے که هر کوئی آے اور اپنے کام کی توجیه صلح امام حسنؑ سے کرے اور اُمت اسلامی کو چکر دے ۔
لهذا اُمت اسلامی کے لے بھی ضروری هے که اپنے اندر بیداری ، شعور و بصیرت پیدا کرے اور دشمن کے نامرئی هتھیاروں کی طرف توجه کرے ۔
والسلام
جوابی تحریر
از قلم : تابعدار حسین
رھبر معظم سید علی خامنہ ای کی بصیرت آمریکہ و اسرائیل کے لیے عذاب بن گی ،
ان کے چیلوں کے لیے سبق کیا؟ ؟
اس تحریر کے آغاز میں چند مہم مطالب کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور اس کے بعد اصلی بحث کا باقاعدہ آغاز کریں گے ۔
1 ۔ سب سے پہلے یہ ذکر کرتے چلیں کہ یہ تحریر جواب ہے اس تحریر کا جو 21 مارچ 2020 کو حمزہ ابراھیم نامی لکھاری کے توسط سے نیچے دیے گئے عنوان کے ساتھ لکھی گئی ۔
( آیت اللہ خامنہ ای کی اجتہادی غلطی، ایران کے لیے عذاب بن گی ۔ پاکستان کے لیے سبق کیا؟)
2 ۔ اس تحریر کے مخاطبین علمی طبقات ہیں اور باقیوں کو اس کے پڑھنے کی نصیحت نہیں کی جاتی کیونکہ ہم اس مقام پر چند اصطلاحات سے استفادہ کریں گے شاید بعضوں کے لیے باعث تشویش ہو۔
جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا ہے اس تحریر کا پہلا عنوان( کنویں کے مینڈک) کو قرار دیا ہے یہ فقط مثال ہے اپنے اصلی مطلب کو سمجھانے کے لیے اور کوئی حرج نہیں ہے کہ ہم اس مقام پر اس مثال کو ذکر کر دیں
ایک آدمی سمندر سے ایک مچھلی پکڑ کے لایا اور اسے اپنے گھر میں موجود کنویں ڈال دیا ۔
اس کنویں میں مینڈکوں کی حکومت تھی۔ مینڈکوں نے جب ایک نئی چیز دیکھی تو پہلے تو وہ ڈرے گھبرائے دور دور گھومنے لگے۔ آخر ایک بڑے مینڈک نے ہمت دکھائی اور مچھلی کے تھوڑا قریب گیا اور پوچھا: تم کون ہو ؟
میں مچھلی ہوں ! مچھلی نے جواب دیا
مینڈک : تم کہاں سے آئی ہو ؟
مچھلی : سمندر سے
مینڈک : وہ کیا ہوتا ہے ؟
مچھلی : وہ بہت بڑا ہوتا ہے اور اس میں پانی ہوتا ہے
مینڈک نے کہا : کتنا بڑا ؟
مچھلی : بہت بڑا
یہ سن کر مینڈک نے اپنے گرد چھوٹا سا گول چکر کاٹا اور پھر مچھلی سے پوچھا : کیا اتنا بڑا ہوتا ہے ؟
مچھلی مسکرائی اور بولی نہیں بڑا ہوتا ہے۔
مینڈک نے تھوڑا بڑا چکر لگایا اور کہا اتنا بڑا ؟
مچھلی ہنسی اور کہا نہیں بڑا ہوتا ہے۔
مینڈک اب جوش میں آ گیا اور اس نے آدھے کنویں کا چکر لگا کر مچھلی کی طرف دیکھا، جیسے پوچھ رہا ہو کہ اب ؟
مچھلی نے پھر نفی میں سر ہلایا
اب تو مینڈک نے پوری رفتار سے پورے کنویں کا چکر لگایا اور مچھلی سے کہا کہ اب اس سے بڑی تو کوئی چیز نہیں ہے ۔
مچھلی مسکرائی اور مینڈک سے کہا : تمہارا قصور نہیں ہے کہ تمہاری سوچ ہی اس کنویں تک ہے۔
اب آپ ذرا توجہ کریں کہ وہ کون سی چیز ہے جس نے اس مینڈک سے سمندر جیسے عظیم موجود کا انکار کرایا؟ کیا باعث بنا؟
ظاہرا وہ مینڈک کی جہالت ہے چونکہ اُس کو کنویں کے علاوہ کسی چیز کا علم نہیں تھا۔
ہمارے معاشرے میں بھی بعض لوگوں کی مثال اس مینڈک کی سی ہوتی ہے جو اپنی جہالت کی بنیاد پر سچ و صداقت کے سمندر اور حقیقت کا انکار کر دیتے ہیں اور ان افراد کا ظرف اس چڑیا کی طرح ہوتا ہے جو پھلوں کے باغ میں مختلف پھلوں کے درختوں پر بیٹھ کر ہر پھل کو اپنی چونج سے ضربیں لگاتا ہے اور اس طرح سے اس کا معدہ بھر جاتا ہے لیکن اگر کوئی اس چڑیا سے ان پھلوں کے متعلق پوچھے تو اس کے معدہ میں پھلوں کی مقدار کہاں اور ان پھلوں کی عظیم حقیقت کہاں ۔
اور یہ افراد جو خصوصا مغرب سے دو لفظ پڑھ کر آتے ہیں یہ بھی چڑیا کی طرح بعض علوم سے اپنی چونج گیلی کرتے ہیں جبکہ ان کا باطن علوم سے خالی ہوتا ہے اور پھر خود کو عالم و دانشور تصور کرتے ہیں اور پھر مینڈک کی طرح سمندر کے متعلق اظہار نظر کرتے ہیں ۔
جبکہ علوم کی ابجد سے ہی واقف نہیں ہوتے اور یہ آغا حمزہ ابراھیم کے جس نے( رھبر معظم سید علی خامنہ ای )کے متعلق تحریر لکھی ہے اُن جُہلاء کی دیگ کا ایک چاول ہے جو ایک تو جانتے نہیں اور دوسرا اپنے نہ جاننے کا بھی علم نہیں رکھتے اور اس قسم کے جهل جو کہ جهل مرکب ہیں عوام سے بھی بدتر ہیں ۔
موصوف نے اپنی تحریر میں کرونا وائرس کو نظریہ ارتقا کہا ہے اور یہ بھی کہا کہ چینی ڈاکٹرزنے اس نظریے کی بنیاد پر کرونا وائرس کو سمجھا ہے اور پھر اس کے علاج کی راہیں نکالی ہیں ، درحالیکہ کہ موصوف نے فقط ادعی کیا ہے بدون دلیل !
کیوں کہ ساری دنیا جانتی ہے که چائنہ کے کسی ڈاکٹر نے یہ بیوقوفانہ بات نہیں کی ہے حتی کہ چین کے وزیر خارجہ نے آغاز میں ہی آمریکہ کی اس شرارت کو دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا تھا ۔
…… چمگادڑ کا شور کرنے والے یا تو آمریکی و اسرائیلی میڈیا تھے
اور یا موصوف جیسے آمریکی چیلوں نے اپنی تحریروں میں سادہ عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔
موصوف نے اپنی تحریر میں اور جو دعوی کیا ہے وہ یہ کہ چونکہ چین ترقی یافتہ ملک ہے اس لیے اس نے بہت جلدی کنٹرول کر لیا ہے چونکہ اسلامی ممالک پسماندہ ہیں تو ان میں کنٹرول کرنا بہت مشکل ہے حتی ان ممالک میں حکومتیں بھی ٹوٹ سکتی ہیں ۔
میں موصوف جناب والا سے پوچھنا چاہتا ہوں ان کی آمریکہ و اٹیلی کے متعلق کیا رائے ہے؟؟؟؟؟ یہ تو پسماندہ نہیں ہیں وہاں کیوں اتنا جلدی پھیل گیا ہے ؟
اور اِس وقت آمریکہ میں چین سے کئی فیصد زیادہ پھیل گیا ہے 85 ہزار لوگ آمریکہ میں اس بیماری میں مبتلا ہو چکے ہیں اور اسی طرح اٹلی بھی ، اور مزہ کی بات یہ ہے وہاں پر ابھی تک کنٹرول نہیں ہوا بلکہ اضافہ ہوا ہے۔
موصوف کا ایک دعوی یہ ہے کہ ایرانی حکومت بروقت قدم اٹھانے میں ناکام رہی اس لیے عوام کو دلدل میں ڈال دیا ۔
اولا تو ایرانی عوام کوئی دلدل میں نہیں پھنسی اور ایران میں کرونا کی شرح باقی ممالک کی طرح ہے یا حتی بعض ممالک سے کم ہے جیسے اٹلی و امریکہ وغیره ۔۔۔۔۔
او ر ثانیا میرا پھر جناب والا سے یہی سوال ہے آیا آمریکہ کی حکومت بھی بر وقت قدم اٹھانے میں ناکام رہی ہے کہ اسکی عوام جو دلدل میں پھنسی ہوئی ہے اور ایران سے دوگنا کرونا وائرس آمریکہ میں پھیل گیا ہے ،
یا وہاں پر بھی ایران سے زائرین گئے ہیں کرونا وائرس پھیلانے کے لیے ۔
موصوف نے یہاں پر جو ایک بحث کی ہے کہ سائنس و مذہب میں فرق اور پھر کہا کہ مذہب کی تفسیر ہو سکتی ہے جبکہ سائنس یعنی علم کی تفسیر نہیں ہوسکتی پھر کہا اس لیے تفاسیر میں اختلاف پایا جاتا جبکہ سائنس یعنی علم ہمیشہ ثابت رہتا ہے اور پھر کہا کہ نیوٹن کا قانون ابھی تک ثابت ہے۔
کاش کہ یہ بات موصوف نے نہ کی ہوتی یہ وہ مقام ہے جہاں پر کنویں کے مینڈک والی مثال کاملا منطبق ہوتی هے ۔
.یہاں پر موصوف نےتین باتیں کی ہیں
1۔ سائنس یعنی علم 2۔ تفسیر 3۔مذہب
اور تینوں کی تعریف تک موصوف آشنائی نہیں رکھتے یہاں پر کچھ وضاحت کی ضرورت ہے ۔
اولا فقط سائنس(علم تجرباتی ) علم نہیں ہے بلکہ یہ علم کی ایک چھوٹی سی قسم ہے ۔
کیوں علم تجرباتی کو سائنس کہتے؟
اس کے پچھے ایک تاریخی داستان ہے کہ یہاں پر ہم اس کو ذکر نہیں کرتے فقط یہ بتاتے چلیں کہ علم مشترک لفظی ہے اور یہ چند معنوں میں استعمال ہوتا ہےاس لیے علم کی چند تعریفیں ہوئی ہیں کہ ان میں سے بعض کو یہاں پر مختصر ذکر کریں گے۔
1 ۔ انسان کا یقین جو واقع کے مطابق ہو اس کو علم کہتے ہے یعنی آپ کو جس چیز کا یقین ہے اور وہ آپ کا یقین واقع کے مطابق ہو بس آپ کو اس چیز کا علم ہے۔
2 ۔ قضایہ کا مجموعہ کہ جن کے درمیان میں مناسبت کو لحاظ کیا گیا ہو چاہے یہ قضایا شخصیہ ہی کیوں نہ ہوں ۔
جیسے علم تاریخ یا علم جغرافیہ یا علم رجال وغیرہ ۔۔۔۔
اس طرح کچھ فلسفی و منطقی تعرفیں ہیں کہ یہاں پر ذکر کرنا مناسب نہیں ہے ۔
3 ۔ قضایہ حقیقی کا مجموعہ کہ جو تجربہ حسی کے ذریعے سے ثابت ہو اس کو بھی علم کہتے ہی ۔
بس خود سائنس( یعنی علم تجرباتی) بھی علم کی ایک قسم نہ کہ مطلق علم، اور اسکے علاوہ کوئی چیز علم نہیں ہے یہ ایک جہالت محض ہے۔
بس اس طرح سے موصوف کا کہنا کہ مذہب اور علم میں فرق یہ اصلا غلط ہے چونکہ علم مذہب کو بھی شامل ہے ۔
دوسرا یہ کہنا کہ مذہب کی تفسیر ہو سکتی ہے اور علم کی نہیں ہوسکتی یہ بھی صراحا فاسد ہے۔
کیوں کہ تفسیر کہتے ہیں کسی عبارت یا متن کے اوپر سے پردہ اٹھانا اور اسکے ابهام کو دور کرنا اور اس کو روشن کرنا ، اور یہ تفسیر مذہب و سائنس ہر دو کی ہوسکتی ہے آیا سائنس پڑھانے والے اساتذہ اپنے شاگردوں کے لیے متون سائنسی کی وضاحت نہیں کرتے یا ان کو روشن نہیں کرتے یا ان کی شرح نہیں لکھتے یہی تو تفسیر ہے فقط فرق اتنا ہے کہ مذہب کے متون، الہی ہیں جو کہ بہت ہی گہرے و عمیق اور اس کی تہہ تک پہنچنا نہ بہت ہی مشکل ہے بلکه محال هے اس لیے اسکی تفسیر کرنے کے لئے مفسر کو اپنی توفیق کے مطابق سمجھ آتا ہے اور یہیں سے تفاسیر میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔
جبکہ علم تجرباتی کے متون سہل و آسان ہوتے ہیں اور ان کو سمجھنے میں کوئی اتنی زیادہ زحمت کی ضرورت نہیں پڑتی، اور دوسرا موصوف کا یہ کہنا کہ سائنس میں قانون قطعی ہوتے ہیں یہ بات خود سائنس سے موصوف کی نہ آگاہی کو ثابت کرتی ہے کیونکہ تمام علوم کے درمیان سب سے زیادہ تغییر پذیر علم ، علم تجرباتی(سائنس ) ہے ۔
میرے خیال سے موصوف اس سے غافل ہیں کہ پہلے سائنسدانوں کے مطابق عالم چار عناصر پر مشتمل تھا۔
1۔پانی 2 ۔ ہوا 3 ۔ زمین 4۔آگ
جبکہ موجودہ سائنسدانوں کے نزدیک نہ فقط یہ غلط ہے بلکہ وہ خود عنصر کو کئی اقسام میں تقسیم کرتے ہیں ۔
اس طرح ایک دوسری مثال پہلے والے سائنسدانوں کے نزدیک سورج زمین کے گرد چکر لگاتا ہے لیکن اب سائنسدانوں کی نظر میں برعکس ہے۔
بس وہ موصوف کا دعوی کہ سائنس صادق ہے و سیکولر ہے اس میں اختلاف نہیں پایا جاتا یہ ساری باتیں کہاں گئی یہ فقط دو مثالیں دی ہیں جبکہ اس طرح کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں ۔
ایک مہم مسئلہ کہ جس پر موصوف نے اپنی نظر کا اظہار کیا وہ ولایت فقیہ ہے اور اس مقام کے لیے ہم نے اس تحریر کے آغاز میں کنویں کے مینڈک کی مثال دی ہے ، چونکہ موصوف نے یہاں پر ایسی چیز کا انکار کیا جو سمندر کی طرح عظیم ہے لیکن چونکہ ولایت فقیہ کی ابجد سے واقف نہیں ہیں لہذا اس کا انکار کردیا اور ایسے شخص کی حکومت کا انکار کیا جس کی بصیرت کا دشمن اعتراف کرتا ہے اور جس نے اپنی جوانی سے لیکر آج دن تک اپنے دشمن کو ہر میدان میں منہ کی کھلائی هے ۔
مجھے افسوس ہوتا ایسے نام نہاد دانشوروں پر جو ٹرمپ جیسے پاگل کے تو نغمہ گاتے گاتے تھکتے نہیں لیکن اپنے عظیم اسلامی راہنما جو حکیم و عاقل و شجاع واہل بصیرت و تمام اسلامی ممالک کو نجات کی طرف لے جانے والے کے اوپر اپنی غلیظ زبان چلاتے ہیں اور نور خدا کو پھونکوں کے ذریعے بجھانے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ ان کو معلوم نہیں ہے کہ اس نور کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالی نے لیا ہے ۔
اپنی تحریر میں موصوف نے یوکرین کے جہاز کا تباہ ہونے میں بھی ولی فقیہ کو قصور وار قرار دیا هے اور پھر کہا کہ خدا پاکستان کو ایسے ولی فقیہ سے محفوظ رکھے ۔
میں اس جناب والا سے پوچھنا چاہتا ہوں پہلی بات تو یہ ہے کہ ایران کے اسلامی نظام کے متعلق آپ اتنا جانتے ہیں کہ آپ کو یہ بھی معلوم نهیں !
کہ ولی فقیہ و موجودہ حکومت کہ جس کے صدر حسن روحانی ہیں دو جدا چیزیں ہیں انتظامی امور حسن روحانی کی حکومت نے انجام دینے ہیں نہ کہ ولی فقیہ نے جنگی حالات میں جہازوں کی پروازیں بند کرنے کی ذمہ داری حکومت پر ہے نہ ولی فقیہ پر اور دوسرا پھر حکومت میں بھی اس کے مربوطہ وزیر کی ذمہ داری ہے اگر اس نے پروازیں بند نہیں کی تو اس کا گناہ نظام پر نہیں آتا اور وہ جہاز بھی غلطی سے نشانہ بنا ہے جیسا کہ خود موصوف نے بھی ایسا کہا ہے۔
جس ملک میں ولی فقیہ کی حکومت ہو اور جس ملک میں ولی فقیہ کی حکومت نہ ہو اس میں فرق یہ ہوتا ہے کہ ایران نے غلطی سے یوکرین کا جہاز تباہ کیا چوتھے دن تسلیم کر لیا اور معذرت کی جب کہ آمریکہ نے 20 سال پہلے ایران کا مسافر جہاز جان بوجھ کر تباہ کیا اور ابھی تک اپنی غلطی تسلیم نہیں کی بلکہ بش نے ٹی وی چینل پر آکر کہا آمریکہ کبھی بھی ایران سے معذرت نہیں کرے گا آپ کے نزدیک یہ تو جدید تعلیم سے آراستہ ہیں پھر کلام جہالیت کیوں؟
جس ملک میں ولی فقیہ ہے وہ تو چالیس سال سے عزت کی زندگی گزار رہے ہیں انہوں نے جو پیشرفت کی ہے وہ ہمیں تو ستر سال سے خواب میں بھی نصیب نہیں ہوئی ۔
ان کو تو مودی نہیں ڈراتا بلکہ وہ تو آمریکہ کے ٹھکانوں پر بھی کامیاب میزائل حملے کرتے ہیں ۔
وہاں تو امنیت سے غیر مسلم بھی محفوظ ہیں لیکن ہمارے ہاں تو چھوٹی سات سال کی بچیوں کی بھی عزت و جان محفوظ نہیں ہے ۔
وہاں تو بجلی ، گیس ، آٹا ، چینی کسی چیز کا بحران نہیں درحالیکہ وہ چالیس سال سے پابندیوں میں ہیں اور ہمارے پاس کھانے کے لیے آٹا نہیں ہے ۔ وہاں تو ساری پارلیمانیٹ پی ایچ ڈی ڈاکٹرز هیں اور همارے پاس تو وزیر تعلیم بھی انگوٹھا مار گزرے هیں ۔
اتنا فرق کیوں ہے؟
جب کہ ہم تو 70 سال پہلے آزاد ہوے هیں اور وهاں تو انقلاب کو آئے هوئے فقط 40 سال ہوے هیں ہم نے تو پوری دنیا کے ساتھ 8 سال جنگ نہیں لڑی انہوں نے تو 8 سال عراق کے ساتھ جنگ لڑی جسکے پچھے ساری دنیا تھی ۔
ہم پر تو کوئی پابندی نہیں ہے ان پر تو پابندیاں ہیں ۔
آئے نام نہاد دانشوروں یہ سب اس لیے ہے کہ ہمارے پاس ولی فقیہ نہیں ہے جبکہ ان کے پاس یہ نعمت خدا موجود ہے ۔
بات رہی کرونا وائرس کے انکار کی کہ ایران کے ذمہ دار طبقہ نے شروع میں کرونا وائرس کے وجود کو قبول نہیں کیا تو یہ دعوی بھی موصوف کے بند کمرے کے اندر اپنی من گھڑت باتیں گھڑنے کا نتیجہ ہے ،
جو بغیر کسی معتبر ذرائع کے اور بغیر معلومات کے خود سے بنائے گئے ۔
درحالیکہ کسی بھی ذمہ دار نے وجود کرونا کا انکار نہیں کیا بلکہ پوری دنیا میں جنہوں نے اس مسئلہ کو جدی لیا وہ ایرانی انتظامیہ ہے لیکن یہ کہ آیا یہ حیوانوں سےانسان میں منتقل ہوا ہے اس کو کوئی عاقل قبول نہیں کرتا۔
کیوں نہیں کرتا؟ اس کی وجوہات ہم نے اپنی سابقہ تحریر میں تمام دلائل کے ساتھ وہاں پر ذکر کی ہیں تکرار غیر نافع ہے۔
موصوف نے اپنی تحریر میں کہا کہ کرونا وائرس کو باقاعدہ ماھان ائیر لائن کے ذریعے چین سے لایا گیا اور کہا کہ یہ ائیر لائن سپاہ کی ہے اور انہوں نے اس کی پروازیں بند نہیں کی ۔
یہ بات 180 درجہ برعکس ہے اولا تو ماھان ائیر لائن سپاہ کی نہیں ہے بلکہ نیم سرکاری ائیر لائن ہے دوسری بات یہ ہے کہ سب سے پہلے جنہوں نے پروازیں بند کرنے کی آواز اٹھائی ہے وہ سپاہ تھی ، اور ساری دنیا جانتی ہے کہ موجودہ ایرانی حکومت اصلاح طلب طبقہ ہے اور وہ انقلابی نہیں ہیں وہ بھی خود موصوف کی طرح عاشق غرب ہیں اور پروازیں بند کرنا ان کی ذمہ داری تھی نہ سپاہ کی !!!!
اور دوسرا اگر کوئی چین سے ان دنوں میں ایران آیا بھی ہے تو اس کو پہلے تهران میں قرنطینہ کے مرحلے سے گزرنا پڑا ہے۔
اگر کسی لکھاری کو اتنا بھی معلوم نہ ہو تو سمندر کے بارے میں رائے دینے سے بہتر ہے پہلے اپنے کسی پڑوسی سے ہی پوچھ لے تاکہ جہالت کو لوگوں میں تقسیم کرنے سے بچ جائے ۔
موصوف کا ایک جملہ جو آپ تمام سن کر تعجب کریں گے وہ یہ تھا کہ انہوں نے بسیج فورس کو نیم خواندہ کہا اب یہاں پر میں موصوف کو تھوڑا بسیج کے کارناموں سے آگاہ کرتا ہوں کہیں موصوف اس دنیا سے جہل ہی نہ چل بسیں ۔
جنہون نے امریکہ کے ڈراون طیارے کو اپنی سرحد میں سالم اتار لیا تھا وہ سب نیم خواندہ بسیجی تھے۔
ایرانی وہ طیارہ جو آمریکہ کے بیڑہ کی نزدیک سے تصاویر لے کر آیا تھا جس تصاویر کو موصوف کے علاوہ ساری دنیا دیکھا ہے اس طیارے کو بنانے والے نیم خواندہ بسیجی ہیں ۔
عراق اور شام میں جنہوں نے داعش کو نابود کیا اور امریکہ و سعودی عرب و اسرائیل کے تمام منصوبوں کو خاک میں ملایا وہ سارے نیم خواندہ بسیجی تھے ۔
ایران سے شام میں داعش کے ٹھکانوں پر کامیاب میزائل حملے کرنے والے سارے افراد نیم خواندہ بسیجی تھے۔
امریکہ کا مہنگا ترین جہاز کو اپنی سرحد پر گرا دینے والے سب جوانان نیم خوانده بسیجی تھے ۔
امریکی ڈیلٹا فورس کو خلیج فارس میں زندہ پکڑنے والے سب کے سب نیم خوانده بسیجی تھے۔
اور اس طرح کے ہزاروں کارنامے اور ، کہ جن کا ذکر کرنا یہاں پر گنجائش سے خارج ہے ۔
یهاں پر ہم نے موصوف حمزہ ابراھیم کی چند جہل کنندہ باتوں کی برسی کی اور ہمیں اسکی تحریر میں سوائے جہالت ،تعصب، کم ظرفی ،بے بنیاد ہوائی دعٰووں کے علاوہ کچھ نظر نہیں آیا ۔
اور ہمارے ملک کی سب سے بڑی مشکل یہی ہے کہ استعماری طاقتوں کے فضلا خور چیلے میڈیا پہ آکر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور عوام کو غلامی کے درس دیتے ہیں اور ان پڑھ لوگ وزیر تعلیم بن جاتے ہیں لالچی و خائن وزیر مال بن جاتے ہیں سب سے بڑے ڈاکو و چور وزیر اعظم بن جاتے ہیں۔
جس ملک کے اندر دنیا کے عظیم ترین علمی ،بصیرت کے شاہکار ،شجاع،سیاست مدار ، اھل تقوی اور جس کی صفات کی پوری دنیا چاهے دوست هو یا دشمن اعتراف کرتی ہو ایسے رهبر کے خلاف کنویں کے مینڈک آکر اپنی رائے دیں ایسے ملک کے لیے ترقی کرنا کہیں دشوار ہو جاتا ہے۔
یہ فضلا خور لوگ اس وقت آکر رھبر عظیم پر حملہ کرتے ہیں جب انکے باپ امریکہ و اسرائیل کو رهبر معظم سید علی خامنہ ای کی بصیرت عذاب میں ڈال دیتی ہے پھر یہ چیلے کنویں سے نکل کر سمندر کے متعلق اظہار نظر کرنے نکل پڑتے ہیں ۔
والسلام
الھم صلِ علیٰ محمد و آلِ محمد
سوال: پانی کی بعض سبیلوں پر لکھا ہوا ہوتا ہے کہ پانی پینے کے لئے ہے یہاں وضو نہ کریں۔ میں نے وہاں سے گھر میں استعمال کے لئے ایک بوتل پانی بھرا، تاہم پینے کے علاوہ اس پانی سے وضو بھی کیا۔ اب ایسے پانی سے وضو کرنے کا حکم کیا ہے؟
جواب: اس پانی سے وضو کرنا صحیح نہیں ہے لیکن گذشتہ کیے گئے وضو اگر لاعلمی کی بنا پر اور قصد قربت کے ساتھ انجام دیئے ہیں تو صحیح ہیں۔
leader_ahkam_ur@
بنیان مرصوص اسلامی فکری مرکز
سوال: سونے کے بدلے دوسرے سونے کی لین دین کس طرح کریں تاکہ سود میں مبتلا نہ ہوں؟
جواب: اگر یہ لین دین دو علیحدہ معاملوں کے ضمن میں انجام پائے تو کوئی حرج نہیں آئے گا، اس طرح کہ پہلے ایک سونا فروخت کیا جائے اور اس کے بعد دوسرا سونا خریدا جائے۔
leader_ahkam_ur@
بنیان مرصوص اسلامی فکری مرکز
سوال: میرے پاس ایک زمین تھی کہ جو میرے والد نے تحفے میں دی تھی اور ایک عرصے کے بعد میں نے وہ زمین فروخت کردی، کیا اس کی فروخت سے حاصل ہونے والے پیسوں پر خمس ہوگا؟
جواب: تحفہ ملنے کے وقت اصل زمین (اور اس وقت کی مالیت) پر خمس نہیں ہے لیکن اس کی بڑھنے والی قیمت کے سلسلے میں اگر زمین کو قیمت بڑھنے یا خرید و فروخت کی نیت سے رکھا ہوا تھا تو بنا بر احتیاط واجب (افراط زر کی مقدار کو منہا کرنے کے بعد) فروخت والے سال کی آمدنی شمار ہوگی کہ اگر سال کے آخر تک باقی رہے تو اس پر خمس ہوگا، بصورت دیگر اس کی بڑھنے والی قیمت پر بھی خمس نہیں ہوگا۔
سوال: کیا کاروبار اور پیشے کے اوزاروں کا خمس ایک بار ادا کردینا کافی ہے یا ضروری ہے کہ ہر سال ان کی بڑھنے والی قیمت کا خمس ادا کیا جائے؟
جواب: ان کا خمس ادا کردینے کے بعد جب تک انہیں فروخت نہ کیا جائے ان پر خمس نہیں ہے اور فروخت کردینے کے بعد ان کی بڑھنے والی قیمت ﴿افراط زر کو منہا کرنے کے بعد﴾ فروخت والے سال کی آمدنی شمار ہوگی اور اگر خمس کی تاریخ تک زندگی کے اخراجات میں خرچ نہ ہو تو اس کا خمس دینا ہوگا۔
سوال: چونکہ رہبر معظم (دام ظلہ) کے فتوی کے مطابق حصص کو وقف کرنا جائز ہے لہذا کیا کسی موقوفہ جائیداد یا کارخانے کو حصص میں تبدیل کرنا جائز ہے؟
جواب: اگر وقف نامے میں مذکورہ فروخت یا تبدیلی کی اجازت دی گئی ہو تو وقف کی مصلحت کا خیال رکھتے ہوئے اس کام کو انجام دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
leader_ahkam_ur@
بنیان مرصوص اسلامی فکری مرکز
سوال: کیا لڑکی نکاح کے ضمن میں یہ شرط رکھ سکتی ہے کہ شوہر کے دوسری شادی کرنے کی صورت میں اسے طلاق کا حق حاصل ہو؟
جواب: عورت کے لئے طلاق کے حق کی شرط رکھنا باطل ہے، مگر یہ شرط رکھے کہ عورت طلاق جاری کرنے میں مرد کی وکیل ہو کہ اگر اس نے دوسری شادی کی تو عورت شوہر کی جانب سے خود کو طلاق دے دے؛ اس صورت میں شرط صحیح ہے۔
leader_ahkam_ur@
بنیان مرصوص اسلامی فکری مرکز