21 رمضان المبارک کی مجلس
خطابت : تابعدار حسین
جوخود کو شیعه علی ؑ کہتا ہے اُس کا یہ فریضه ہے که و شخصیت امیرالمومنینؑ کی معرفت حاصل کرئے ، اس امر میں غفلت نہ کرے کیونکہ اس امر میں غفلت یعنی درحقیقت فیض معرفت و آگاهی سے محرومیت هے ، جس کے مقام کے آگے اجنبی بھی سر تسلیم ہیں مثلا فخر رازی کو دیکھیں جو که ایک دانشمند اہل سنت ہیں اور امام مشککین ہیں ، سورہ فاتحہ کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ بلآخر ہیں معلوم نہیں ہوا کہ رسول اللهﷺ نماز میں بسم الله الرحمن کو بلند آواز سے پڑھتے تھے یا آہسته ؟ اس مسئلہ میں ہم علی ابن ابی طالب ؑ سے تمسک کرتے ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا العلی مع الحق و الحق مع العلی ، لہذا نماز میں بسم الله الرحمن الرحیم کو نماز میں بلند آواز سے پڑھنا چاہیے ۔
جب شیعه کا معنی تابع و پیروں علیؑ هے تو پیروی معرفت میں گروی ہے ، جب جس کی پیروی کرنی ہے اگر اس کی معرفت نہ ہو تو کیسے انکی پیروی کی جا سکتی ہے پیروی اس وقت متحقق ہوتی ہے جب معرفت ہو ۔
اور یہ بھی مسلمات میں سے ہے که معرفت ذات امیر المومنینؑ ، امام معصوم ؑ کے علاوه کسی کے بس کی بات نهیں ،لہذا ہم امام معصوم سے تمسک کریں گے تاکه اپنی وسع و طاقت کے مطابق معرفت امام المتقین کو حاصل کریں ۔
جب امام ھادی ؑ کو معتصم عباسی نے مدینہ سے سامرہ کی طرف بلایا تو امامؑ جب نجف اشرف میں پہنچے تو قبر مطھر امیر المومینؑ پر ایک زیارت نامہ انشاء کیا جوکه زیارت غدیریہ کے نام پر مشہور ہےجس میں شخصیت امیرالمومنینؑ کے چند پہلوں کو بیان فرمایا ہے ۔
امام ھادیؑ فرماتے ہیں : السَّلامُ عَلَیْکَ یَا وَلِیَّ اللّٰهِ، أَنْتَ أَوَّلُ مَظْلُومٍ، وَأَوَّلُ مَنْ غُصِبَ حَقُّهُ، صَبَرْتَ وَاحْتَسَبْتَ حَتَّىٰ أَتَاکَ الْیَقِینُ، فَأَشْهَدُ أَنَّکَ لَقِیتَ اللّٰهَ وَأَنْتَ شَهِیدٌ
امام ھادیؑ فرماتے ہیں میرا سلام ہو آپ پر ائے ولی خدا ، آپ پہلے مظلوم ہیں ، اور پہلے وه جن کا حق غصب کیا گیا آپ نے صبر کیا اور اس کا احتساب خدا پر چھوڑ دیا یہاں تک کہ آپ شھید ہوگے اور میں گواھی دیتا ہوں کہ آپ حالت شھادت میں خدا سے ملاقات کی ہے ۔
یہاں پر امامؑ سلام نے امیر المومنینؑ کی پہلی وصف اولین مظلوم بیان کیا ہے ، واقعا عالم میں مولا امیرؑ پہلے مظلوم ہیں جنہوں نے اپنی مظلومیت کو بہت سخت تعبیرات کے ساتھ بیان ہے ۔
آپ ذره مظلومیت امیرالمومنینؑ پر توجہ فرمائیں ، ایک دن آپؑ گھر تشریف لاتے ہیں تو بنت رسول الله رو رہی ہوتی ہیں آپؑ پوچھتے ہیں بنت رسول الله کیا ہوا ہے کہ آپ علیؑ کے ہوتے رو رہی ہیں تو آپ فرماتی ہیں مولا میں نے سنا ہے مدینہ کے لوگ آپ کو سلام نہیں کرتے ، امامؑ نے فرمایا ماجرہ فقط یہاں تک نہیں ہے بلکہ میں سلام کرتا ہو مدینہ کے لوگ مجھے سلام کا جواب نہیں دیتے ، یہ ہے مظلومیت امیرالمومنینؑ جو اسدالله ہیں جو یعسوب الدین ہیں جو مومن و فاسق کے درمیان فرق کرنے کا معیار ہیں اور رحلت رسول اللهﷺ کے بعد اس کو سلام کا جواب نہیں دیتے یہ ہے مظلومیت امیرالمومنینؑ ، ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اس مظلومیت کے پیچھے کیا راز ہے اور کیا علل و اسباب ہیں کہ رحلت رسول الله ﷺ کے فورا بعد اتنے مظالم امیرالمومنینؑ پر ڈھاے گیے ، یہاں پر ہم اُن علل و اسباب میں سے فقط چند کو ذکر کریں گے ۔
1 ۔ تنھائی
پہلی علت یہ بیان ہوئی ہے کہ امیرالمونینؑ کو رحلت رسول الله ﷺ کے فورا بعد اُمت نے تنہا چھوڑ دیا امیرالمومنینؑ کے ساتھ فقط اپنے اہل بیت ره گئے اس کو خود امیرالمومنینؑ نے نہج البلاغہ کے اندر بیان کیا ہے ایک اور حدیث میں تنہائی امیرالمومنینؑ کو اس طرح سے بیان کیا گیا ہے
عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ عَلَیْهِ اَلسَّلاَمُ قَالَ: اِرْتَدَّ اَلنَّاسُ بَعْدَ اَلنَّبِیِّ إِلاَّ ثَلاَثَةَ نَفَرٍ: اَلْمِقْدَادُ بْنُ اَلْأَسْوَدِ وَ أَبُو ذَرٍّ اَلْغِفَارِیُّ وَ سَلْمَانُ اَلْفَارِسِیُّ ، ثُمَّ إِنَّ اَلنَّاسَ عَرَفُوا وَ لَحِقُوا بَعْدُ
رسول الله ﷺ کے بعد لوگ مرتد ہوگے مگر تین نفر مقداد ، ابوذر و سلمان فارسی ، البتہ بعض روایات میں چار نفر و بعض میں پانچ نفر بھی ذکر ہیں جو چیز مسلم ہے دس نفر سے کم تھے ، اور یہاں پر مرتد سے مراد مرتد فقہی نہیں ہے بلکہ یہاں پر ایک خاص معنی ہے اور یہ ہے لوگ ولایت امیرالمومنینؑ سے منہ موڑ لیا اور سقیفہ کے پچھے چل پڑے اور ولایت علیؑ کہ جس اعلان رسول الله ﷺ نے خم غدیر کے مقام پر کیا لوگوں نے اس سے منہ موڑ لیا اور علیؑ کو تنہا چھوڑ دیا ۔
2 ۔ عدالت
امیرالمومنینؑ کو خلافت ظاھری ملی تو امامؑ نے اپنا طریقہ حکومت میں عدالت کو مرکزیت دی اور اسکو اس طرح سے بیان فرمایا جو باعث مظللومیت امیرالمومنینؑ بنی ،
فَاَنتُم عِبادُ اللّهِ وَ المالُ مالُ اللّهِ یُقَسِّمُ بَینَهُم بِالسَّویه لا فَضلَ فیه لِأحَدٍ عَلی أحَد وَ لِلمُّتَّقینَ عِند اللّهِ غَدا أحسَنُ الجَزآءَ و اَفضَلُ الثّواب ، لَم یَجعَلِ اللّه ُ الدُّنیا للمُتَّقینَ أجرا و لا ثَوابا و ما عِندَ اللّه ِ خَیرٌ للأبرارِ .
آپ بندگان خدا ہیں اور بیت المال الله کا مال ہے اور میں اس کو آپ کے درمیان مساوی تقسیم کروں گا اور اس میں کسی کو کسی دوسرے پر فضیلت نہیں ہے اور متقین کےلیے آخرت میں الله کے ہاں ان کےلیے بہتریں جزاء اور بافضیلت ثواب ہے ،اللہ نے متقین کے لیے دنیا میں نہ کوئی جزا قرار دی ہے اور نہ ثواب اور وه جو الله کے پاس آخرت میں ہے وہی بہتر و خیر ہے ۔
جب تقریر امیرالمومنینؑ نے کی تو بعضوں کو معلوم ہو گیا کہ پہلے کی طرح اب ہم بیت المال سے مال نہیں بٹور سکیں گے لہذا مخالفت پر اتر آئے اور حتیٰ کہ جنگیں لڑنے تک گریز نہیں کیا ، دوسرے دن طلحة و زبیر آئے اور یہ کہا : ان طلحة و الزبیر أتیا علیا ً بعد ما بایعاه بأیام فقالا:
یا امیرالمؤمنین قد عرفت شدة مؤنة المدینه و کثره عیالنا و ان عطاءنا لایسعنا ، ہمیں جو بیت المال سے حصہ ملتا ہے وه کم ہے اور ہمارے عیال بھی زیاده ہیں اور اس سے ہمارا گزارا نہیں ہوتا لہذا ہمیں بیت المال سے زیاده حصہ دیں تو امیرالمومنینؑ نے فرمایا : فقال: اطلبا الی الناس فان اجمعوا علی ان یعطوکما شیئا ً من حقوقهم فعلت ، آپ جاکرلوگوں سے مانگیں اور اُن سے کہیں کہ ہمیں اپنا حق دے دیں اگر وه دے دیں تو مجھے کوئی مشکل نہیں ہے ، تو پھر ان دونوں نے کہا :قالا: لمن نکن لنطلب ذلک الی الناس و لم یکونوا یفعلوا لوطلبنا الیهم! ، یہ ہم نہیں کہہ سکتے اور اگر ہم کہیں بھی سہی تو لوگ نہیں مانے گے تو اس وقت امیرالمومنینؑ نے فرمایا : قال: فأنا و الله احری ان لاافعل فانصرفا عنه ، خدا کی قسم میں سزاوار تر ہوں کے یہ کام نہ کروں ، جب آپ خود کہہ رہے ہیں کہ لوگ نہیں مانیں گے تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ لوگوں کا مال آپ لوگوں کو دے دے ، پھر اس قاطعیت و عدالت کے نتیجہ میں جنگ جمل برپا ہوئی ہے ۔
یہ ہیں وه علل و اسباب کہ جس کی وجہ امیرالمومنینؑ اتنے مظلوم ہوے کہ اول مظلوم عالم کہلاے ، اسی طرح اس علت کا ادامہ اور باقی علل ان شاء الله آنے والے جلسات کے اندر زیر بحث لائیں گے ۔
برنامہ ماه مبارک رمضان
خطابت : تابعدار حسین
انہوں نے بیان فرمایا کہ ماه مبارک رمضان فوق العاده اہمیت کا حامل ہے ،یہ وہ مہینہ ہے جس میں خدا وند کریم اپنے بندوں پر رحمت کے دروازه کھول دیتا ہے اسی وجہ سے اہل سلوک اس مہینہ کو اپنے لیے سال کا پہلا مہینہ قرار دیتے ہیں ۔
خدا وند کریم نے اس مہینہ کے پہلے عشرہ کو اپنے بندوں کے لیے رحمت قرار دیا ہے تاکہ میرا بنده جب میری طرف حرکت کرے تو سختی میں نہ پڑے بلکہ رحمت خدا اُس کے شامل حال ہو ، رسول اکرم ﷺ فرماتے ہیں هو شهر اوله رحمة و اوسطه مغفرة و اخره عتق من النار؛