آج سے دوبارہ کام شروع
تحریر ؛ تابعدار حسین هانی
کافی عرصہ سے جنگی میدانوں کی ماہیت تبدیل ہوچکی ہے ، قدیم زمانے میں جنگ کی جیت کسی بھی ملک یا زمین پر قبضه کرنے سے ہوتی تھی لیکن اب جنگ میں جیت کا پہلا قدم فہم ، عقل ، فکر و سوچ اور دلوں کو تبدیل کرنا ہے ۔
اس کی بہترین مثال آمریکہ کا 2003 میں عراق پر حملہ کرنا ہے ، جس میں آمریکہ نے عراق کی سرزمین پر قبضہ کرنے سے پہلے تقریبا ایک سال تک میڈیا کے زریعے سے عراق پر حملہ آور ہوا ، ارادے سُست کیے اور اس کے بعد چند دنوں میں عراق کو اپنے قبضے میں لے لیا اور اُس پر حاکم ہوگیا ۔
اس طرح کی فراوان مثالیں آپ کو تاریخ میں ملیں گی ، ارادوں کی جنگ کا محکم ارتباط شناختی جنگ کے ساتھ ہے ، شناختی جنگ سے مراد ایسی جنگ هے که جس جنگ میں میدان ِجنگ معاشره کے پڑھے لکھے لوگ اور عام انسانوں کی سوچ و فکر ہے ، اس معنی میں کہ عوام اور پڑھے لکھے طبقہ کی فکری صلاحیت کو تبدیل کیا جاتا ہے ، پہلے ان کے اعتقادات پر حملہ کیا جاتا ہے اور پھر انکے رہن سہن کو تبدیل کیا جاتا ہے ، یہ جنگ ، نفسیاتی جنگ سے کئی گنا پچیده و خطرناک ہے ، اس جنگ کا بنیادی نتیجه مضاعف انسانی ہے ، یعنی فیزیکلی جنگ میں جب ایک سپاہی مارا جاتا ہے تو فقط ایک نفر کم ہوتا ہے ، جبکه شناختی جنگ میں جب ایک انسان اپنے عقائد میں مردد ہوتا ہے تو ایک نفر کم ہونے کے ساتھ ساتھ دشمن کی صف میں ایک بندہ اضافہ بھی ہوتا ہے ، اس صورت میں کسی بھی دین و ملک کا اصلی سرمایه (عوام) مورد حملہ واقع ہوتا ہے اور اپنے ملک و اعتقادات کے متعلق بد بین ہوجاتا ہے ، اگر یه جنگ طول پکڑ لے تو عوامی طبقہ کے اندر ایک شکاف پیدا ہوجاتا ہے جو بلآخر بحران کی شکل اختیار کرلیتا ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے که ارادوں کی جنگ میں اصلی ترین ہتھیار میڈیا ہے ، اور میڈیا کی مدد سے مخاطب کے ذهین کو اس طرح سے واش کیا جاتا ہے که مخاطب اس واقعه یا حادثہ کو اس نگاه سے دیکھتا ہے جس نگاہ سے میڈیا عوام کو دکھانا چاہتا ہے ، اگر میڈیا کی ذمہ داری ارادے سست کرنا ہو تو سست کرتا ہے اور اگر ارادہ مظبوط کرنا ہو تو مظبوط کرتا ہے ، البتہ یہ ہمارے ذہین میں رہے کہ میڈیا خود جنگ نہیں بلکہ ایک جنگی ہتھیار ہے اصلی جنگ ، ارادں کی جنگ ہے اور میڈیا کو اپنے دشمن کے ارادے کمزور کرنے کے لیے آلہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔
مقام معظم رہبری نے اپنے خطبات کے اندر کئی بار اس امر پر تاکید کی ہے که آج اُمت اسلامی ہوشیار رہے کیونکہ آج اس کے ساتھ ارادے کی جنگ لڑی جارہی ہے اور اُمت اسلامی کے حوصلے پست کرنے کےلیے اُن کے اراده کمزور کئے جاتے ہیں ۔
اور آج ہمارے لیے یہ بات روشن ہے کیونکه اگر ہم 57 اسلامی ممالک پر نظر دوڑائیں تو ہمیں دو قسم کے ممالک نظر آئیں گے ایک وه ممالک جن کے پاس ہر چیز هونے کے باوجود ذلیل ہیں اور کچھ ایسے ممالک ہیں جو تمام تر سختیوں اور مشکلات کے باوجود اور وسائل کم ہونے کے باوجود دنیا میں عزت مندانہ زندگی گزار رہے ہیں مثلا تمام عربی ممالک ، ترکی ، پاکستان و غیره کو اگر دیکھیں تو سب کچھ ہونے کے باوجود آمریکه اور اسرائیل کے غلام ہیں اور انکی اجازت کے بغیر اپنے ہی ملک کے اندر کوئی کام نہیں کرسکتے بلکہ چھوٹے سے چھوٹے مسئله کےلیے شیطان اکبر آمریکہ سے اجازت لینی ہوتی ہے ، کیوں ان ممالک کے ساتھ ایسا ہوا ہے ؟ اس وجہ سے کہ سب سے پہلے انکو شناختی جنگ کے اندر شکست دی گئی اور انکے اعتقادات کو ترقی کے نام پر کمزور کیا گیا ، انکو اپنا ہمفکر بنایا گیا ، اگر ساده الفاظ میں کها جائے تو انکی سوچ کو غلام بنایا گیا اور ان پر ارادے کی جنگ مسلط کی گی اور انکے ارادے سست کئے گے اور یہ تلقین دلائی گی کہ آپ کچھ نہیں کر سکتے ، اگر ہم آپ کا ساتھ چھوڑ دیں تو آپ لوگ بھوک سے مر جائیں گے آپ ڈیفالٹ ہوجائیں گے ، انکی سوچ پہلے سے غلام تھی اور ساتھ میں ارادے بھی سست پڑ گئے اور دشمن نے بغیر حمله کیا ان ممالک کو تسخیر کر لیا اور آج یہ ممالک جلتے ہوئے فلسطین کو دیکھ رہے ہیں لیکن انکے گلے خشک ہیں اور یہ اس قابل بھی نہیں ہیں کہ ایک بیان تک دے دیں ۔
دوسری طرف اسلامی ممالک میں چند انگشت شمار ملک ایسے بھی ہیں جنکے اوپر دشمن کی شناختی جنگ نے کوئی اثر نہیں کیا اور انکی سوچ کو غلام نہیں بنا سکے اور اسی طرح دشمن کی ارادوں کی جنگ نے بھی کسی قسم کا اثر نہیں کیا اور انکے ارادے کمزور نہیں کرسکے جن میں سر فہرست ایران اسلامی ہے جنکو انقلاب اسلامی سے لیکر آج دن تک مختلف جنگوں میں رکھا گیا ، جب اس حربہ نے اثر نہیں کیا پھر سخت ترین پابندیاں لگائی گئیں ، انکے سائنسدانوں کو ٹارگٹ کیا گیا ، انکے دانشمندوں کو ٹارگٹ کیا گیا ، انکے سیاستدان شہید کئے گے لیکن اس قوم نے ذلت قبول نہیں کی ، کیونکہ انکے ارادے پختہ تھے انکے اراده کمزور و سست نہیں پڑے ۔
اسی طرح فلسطین کو دیکھیں ، یمن کو دیکھیں ، لبنان کو دیکھیں ، سوریا و عراق کو دیکھیں یہ وہ ممالک ہیں جن کے پاس کچھ بھی نہیں تھا اور دشمن انکو اپنا غلام بنانا چاہتا تھا لیکن انہوں نے غلامی کی زنجیریں توڑ ڈالی ، انہوں نے سختیاں قبول کی لیکن غلامی قبول نہیں کی ، یمنیوں نے سعودیہ کے ساتھ سات سال جنگ لڑی اس وقت پوری دنیا سعودیہ کے ساتھ تھی اور یمنی مجاہد تک تنها تھے ، ان مجاہدوں کے پاس پہننے کےلیے جوتے بھی نہیں تھے لیکن اپنے دشمن کو ،ناکوں چنے چوبائے ، اور آخر کا ذلت آمیز شکست دی ، اس حوصلے و جزبہ کے پیچھے راز یہ ہے کہ انہوں نے شناختی جنگ میں اور ارادوں کی جنگ میں پورے 100 نمبر لیے ، اپنے ارادے سست نہیں ہونے دیے ، اپنے ارادے کمزور نہیں ہونے دیے اور آج پوری دنیا میں سربلند ہیں اور رهیں گے ۔ ان شاء الله
علامہ اقبال ؒ کے بقول
ارادے جن کے پخته ہوں نظر جنکی خدا پر ہو
طلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے
لہذا آج وہ قوم و ملت کامیاب ہوگی جو ارادوں کی جنگ میں کمزور نہیں پڑے گی اور اپنے ارادے سست نہیں ہونے دے گی ، جس قوم کے ارادے سست و کمزور پڑ گئے غلامی انکی قسمت بن جائے گی ۔
بنیان مرصوص اسلامی فکری مرکز
تحریر؛ تابعدار حسین ہانی
2018 میں مجھے پہلی دفعہ تحصیل علم کے لیے ایران جانا ہوا ، وہاں پر پہنچے ہوئے مجھے ایک سے دو مہینہ گزرا تھا کہ ماه مبارک مضان کے آخری جمعہ کا دن آگیا ، میں نے سنا ہوا تھا که ایران میں یوم القدس بہت اہتمام و بہترین طریقہ سے منایا جاتا ہےاور یہ بھی معلوم تھا که اس دن کو عالمی دن کے طور پر منانےکا آغاز بھی ایران سے ہوا اور اس سنت حسنه کا سہرا بھی ایران کے سر ہے ۔
لہذا میں معینہ وقت سے پہلے،جہاں سے یوم القدس کی ریلی کا آغاز ہونا تھا پہنچ گیا، آہستہ آہستہ لوگ آنے لگے،معینہ وقت پر ریلی کا آغاز ہوا اور یہ ریلی سمندر کا سماں اختیار کرگئی،ایسے لگتا تھا جیسے پورا ایران ہی گھروں سے باہر آگیا ہو ۔
بہرحال ہم اس عظیم اجتماع میں شریک ہوئے اور جمعہ کی نماز کے بعد گھر کی طرف روانہ ہوئے،جس بَس پر میں سوار ہوا ، میرے ساتھ والی سیٹ پر ایک نوجوان بچہ بیٹھا ہوا تھا جس کی عمر شاید 12 سے 14 سال کے قریب تھی ، اس نے مجھے سلام کیا اور میں نے سلام کا جواب دیا ،تھوڑی دیر بعد اسنے مجھ سے سوال کیا آپ پاکستانی ہیں ؟ میں نے جواب دیا جی ہاں میں پاکستانی ہوں ، یہاں سے اس کے اور میرے درمیان مختصر مکالمہ ہوا ، ایک موضوع جس پر چند جملےگفتگو ہوئی وہ اسرائیل کی نابودی تھی ۔
میں نے سُن رکھا تھا کہ ایرانی انقلابی جوان کافی با معرفت ہوتے ہیں اور اسکی کئی ایسی مثالیں شھداء دفاع مقدس کے بارے میں مختلف کتابوں میں پڑھنے کو ملی تھی لیکن ابھی تک کسی زنده مثال کا مشاہده نہیں ہوا تھا ۔
اسرائیل کی نابودی کےحوالے سے جو چند جملے اس جوان سے گفتگو ہوئی اُن میں سے ایک جملہ یه تھا ، مَیں نے اس جوان سے کہا کہ ماشاء اللہ ایران میں انقلاب اسلامی کے بعد سے کافی بیداری آچکی ہے ، یوم القدس کا اتنا بڑا اجتماع میں نے کہیں پر نہیں دیکھا ،اس بیداری سے ظاہر ہوتا ہے اسرائیل کی نابودی نزدیک ہے کیونکہ قومیں آہسته آہسته بیدار ہورہی ہیں ۔
تو اس جوان نے میری طرف دیکھا اور کہا کہ اسرائیل کو تو ایک دن ضرور نابود ہونا ہے ، اصلا یہ امکان نهیں ہے کہ اسرائیل نابود نہ ہو ، مہم یہ ہے کہ آخر کس کے ہاتھوں سے نابود ہوگا ؟ اس کی نابودی میں همارا کتنا حصہ ہوگا ؟کہیں ایسا نہ ہو کہ اسرائیل نابود ہوجائے اور ہمارا اس جہاد فی سبیل الله میں کس حوالے سے کوئی حصہ نہ ہو ، یہ خطرناک ہے ۔
سچ پوچھیں تو اُس وقت میں اس جوان کے یہ جملے سُن کر حیران ہوگیا کہ اس عمر میں اتنی معرفت ؟
یہ واقعہ اس لیے نقل کیا ہے کیونکه آج اسرائیل کی نابودی ان شاء الله نزدیک ہے ، لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ کس کے ہاتھوں سے ؟ ہمارا کتنا حصہ ہے اس ظلم کے خلاف ؟ ہم کہاں پر کھڑے ہیں ؟ کہیں تاریخ میں ہمیں یہ تو نہیں کہا جائے گا کہ اتنے زیاده مسلمانوں کے ہوتے ہوئے ، اسرائیل نے کیسے فلسطینوں پر ظلم کیا؟ جیسے آج ہم کہتے ہیں اتنے صحابہ کے ہوتے ہوئے نواسہ رسول الله ﷺ کو کربلا میں کیسے شہید کیا گیا ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہا جائے گا کہ فلسطین کو فقط ایرانی ، لبنانی و یمنیوں نے آزاد کرایا تھا ،پس اُس وقت 25 کڑوڑ پاکستانی کیا کر رهے تھے؟
اُس وقت ہم کیا کہیں گے ؟ یہ کہیں گے کہ پاکستانی کرکٹ کھیل رہے تھے یا پپ جی کھیل رہے تھے یا سوشل میڈیا کی لہویات میں مشغول تھے ۔
ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اسرائیل نے ہر صورت میں نابود ہونا ہے ، کیونکہ یہ ایک جنایتکار گینگ ہے جن کے پاس اس ظلم کی نہ کسی دین سے مشروعیت ہے حتی یہودیت سے، نہ کسی عُرف سے مشروعیت ہے اور نہ کسی بھی معاشرہ سے مقبولیت ہے ، اسرائیل کی مشکل ، مشکل وجودی ہے ، اسکا وجود سرے سے مورد اشکال ہے لہذا جس کا وجود قابل اثبات نہ ہو اسکو مٹانا و نابود کرنا کوئی مشکل امر نہیں ہے ، سید مقاومت کے بقول ، اسرائیل مکڑی کے جال سے بھی کمزور ہے ۔
لیکن قابل توجہ یہ امر ہے کہ آج کے فتح خیبر میں ہمارا کتنا کردار ہے ؟ آیا اسرائیل کے خلاف ثقافتی جنگ میں ہمارا کتنا سہم ہے ؟ سیاسی جنگ میں ہمارا کتنا سہم ہے؟ اقتصادی جنگ میں ہمارا کتنا حصہ؟ میڈیا کی جنگ میں ہمارا کتنا حصہ ہے؟ رہبر معظم کے فرمان پر ہم کتنا جہاد تبیین کر رہے ہیں؟
یہ وہ نکتہ ہے کہ جس کی طرف ہمیں توجہ کرنے کی ضرورت ہے ،تنہائی میں ہمیں خود سے یہ سوال کرنے چاہیے اور اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے
بنیان مرصوص اسلامی فکری مرکز
مجلس عزا بمناسبت حضرت امیرمسلم علیہ السلام (1444 ھ ق)
اس مجلس کا پی ڈی ایف میں خلاصہ حاصل کرنے کے لیے یہاں پر کلیک کریں
خطابت : تابعدار حسین
تصاویری جهلکیاں
بنیان مرصوص اسلامی مرکز
تابعدار حسین هانی
ایک شخص امام صادق علیہ السلام کی خدمت آتے ہیں اور بیان کرتے ہیں کہ میرا تمام سرمایا میرے ہاتھ سے چلا گیا اب میں کیا کروں امام علیه السلام فرماتے
ہیں (باقی ماجره خود کلپ میں سماعت فرمائیں)
بنیان مرصوص اسلامی فکری مرکز
21 رمضان المبارک کی مجلس
خطابت : تابعدار حسین
جوخود کو شیعه علی ؑ کہتا ہے اُس کا یہ فریضه ہے که و شخصیت امیرالمومنینؑ کی معرفت حاصل کرئے ، اس امر میں غفلت نہ کرے کیونکہ اس امر میں غفلت یعنی درحقیقت فیض معرفت و آگاهی سے محرومیت هے ، جس کے مقام کے آگے اجنبی بھی سر تسلیم ہیں مثلا فخر رازی کو دیکھیں جو که ایک دانشمند اہل سنت ہیں اور امام مشککین ہیں ، سورہ فاتحہ کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ بلآخر ہیں معلوم نہیں ہوا کہ رسول اللهﷺ نماز میں بسم الله الرحمن کو بلند آواز سے پڑھتے تھے یا آہسته ؟ اس مسئلہ میں ہم علی ابن ابی طالب ؑ سے تمسک کرتے ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا العلی مع الحق و الحق مع العلی ، لہذا نماز میں بسم الله الرحمن الرحیم کو نماز میں بلند آواز سے پڑھنا چاہیے ۔
جب شیعه کا معنی تابع و پیروں علیؑ هے تو پیروی معرفت میں گروی ہے ، جب جس کی پیروی کرنی ہے اگر اس کی معرفت نہ ہو تو کیسے انکی پیروی کی جا سکتی ہے پیروی اس وقت متحقق ہوتی ہے جب معرفت ہو ۔
اور یہ بھی مسلمات میں سے ہے که معرفت ذات امیر المومنینؑ ، امام معصوم ؑ کے علاوه کسی کے بس کی بات نهیں ،لہذا ہم امام معصوم سے تمسک کریں گے تاکه اپنی وسع و طاقت کے مطابق معرفت امام المتقین کو حاصل کریں ۔
جب امام ھادی ؑ کو معتصم عباسی نے مدینہ سے سامرہ کی طرف بلایا تو امامؑ جب نجف اشرف میں پہنچے تو قبر مطھر امیر المومینؑ پر ایک زیارت نامہ انشاء کیا جوکه زیارت غدیریہ کے نام پر مشہور ہےجس میں شخصیت امیرالمومنینؑ کے چند پہلوں کو بیان فرمایا ہے ۔
امام ھادیؑ فرماتے ہیں : السَّلامُ عَلَیْکَ یَا وَلِیَّ اللّٰهِ، أَنْتَ أَوَّلُ مَظْلُومٍ، وَأَوَّلُ مَنْ غُصِبَ حَقُّهُ، صَبَرْتَ وَاحْتَسَبْتَ حَتَّىٰ أَتَاکَ الْیَقِینُ، فَأَشْهَدُ أَنَّکَ لَقِیتَ اللّٰهَ وَأَنْتَ شَهِیدٌ
امام ھادیؑ فرماتے ہیں میرا سلام ہو آپ پر ائے ولی خدا ، آپ پہلے مظلوم ہیں ، اور پہلے وه جن کا حق غصب کیا گیا آپ نے صبر کیا اور اس کا احتساب خدا پر چھوڑ دیا یہاں تک کہ آپ شھید ہوگے اور میں گواھی دیتا ہوں کہ آپ حالت شھادت میں خدا سے ملاقات کی ہے ۔
یہاں پر امامؑ سلام نے امیر المومنینؑ کی پہلی وصف اولین مظلوم بیان کیا ہے ، واقعا عالم میں مولا امیرؑ پہلے مظلوم ہیں جنہوں نے اپنی مظلومیت کو بہت سخت تعبیرات کے ساتھ بیان ہے ۔
آپ ذره مظلومیت امیرالمومنینؑ پر توجہ فرمائیں ، ایک دن آپؑ گھر تشریف لاتے ہیں تو بنت رسول الله رو رہی ہوتی ہیں آپؑ پوچھتے ہیں بنت رسول الله کیا ہوا ہے کہ آپ علیؑ کے ہوتے رو رہی ہیں تو آپ فرماتی ہیں مولا میں نے سنا ہے مدینہ کے لوگ آپ کو سلام نہیں کرتے ، امامؑ نے فرمایا ماجرہ فقط یہاں تک نہیں ہے بلکہ میں سلام کرتا ہو مدینہ کے لوگ مجھے سلام کا جواب نہیں دیتے ، یہ ہے مظلومیت امیرالمومنینؑ جو اسدالله ہیں جو یعسوب الدین ہیں جو مومن و فاسق کے درمیان فرق کرنے کا معیار ہیں اور رحلت رسول اللهﷺ کے بعد اس کو سلام کا جواب نہیں دیتے یہ ہے مظلومیت امیرالمومنینؑ ، ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اس مظلومیت کے پیچھے کیا راز ہے اور کیا علل و اسباب ہیں کہ رحلت رسول الله ﷺ کے فورا بعد اتنے مظالم امیرالمومنینؑ پر ڈھاے گیے ، یہاں پر ہم اُن علل و اسباب میں سے فقط چند کو ذکر کریں گے ۔
1 ۔ تنھائی
پہلی علت یہ بیان ہوئی ہے کہ امیرالمونینؑ کو رحلت رسول الله ﷺ کے فورا بعد اُمت نے تنہا چھوڑ دیا امیرالمومنینؑ کے ساتھ فقط اپنے اہل بیت ره گئے اس کو خود امیرالمومنینؑ نے نہج البلاغہ کے اندر بیان کیا ہے ایک اور حدیث میں تنہائی امیرالمومنینؑ کو اس طرح سے بیان کیا گیا ہے
عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ عَلَیْهِ اَلسَّلاَمُ قَالَ: اِرْتَدَّ اَلنَّاسُ بَعْدَ اَلنَّبِیِّ إِلاَّ ثَلاَثَةَ نَفَرٍ: اَلْمِقْدَادُ بْنُ اَلْأَسْوَدِ وَ أَبُو ذَرٍّ اَلْغِفَارِیُّ وَ سَلْمَانُ اَلْفَارِسِیُّ ، ثُمَّ إِنَّ اَلنَّاسَ عَرَفُوا وَ لَحِقُوا بَعْدُ
رسول الله ﷺ کے بعد لوگ مرتد ہوگے مگر تین نفر مقداد ، ابوذر و سلمان فارسی ، البتہ بعض روایات میں چار نفر و بعض میں پانچ نفر بھی ذکر ہیں جو چیز مسلم ہے دس نفر سے کم تھے ، اور یہاں پر مرتد سے مراد مرتد فقہی نہیں ہے بلکہ یہاں پر ایک خاص معنی ہے اور یہ ہے لوگ ولایت امیرالمومنینؑ سے منہ موڑ لیا اور سقیفہ کے پچھے چل پڑے اور ولایت علیؑ کہ جس اعلان رسول الله ﷺ نے خم غدیر کے مقام پر کیا لوگوں نے اس سے منہ موڑ لیا اور علیؑ کو تنہا چھوڑ دیا ۔
2 ۔ عدالت
امیرالمومنینؑ کو خلافت ظاھری ملی تو امامؑ نے اپنا طریقہ حکومت میں عدالت کو مرکزیت دی اور اسکو اس طرح سے بیان فرمایا جو باعث مظللومیت امیرالمومنینؑ بنی ،
فَاَنتُم عِبادُ اللّهِ وَ المالُ مالُ اللّهِ یُقَسِّمُ بَینَهُم بِالسَّویه لا فَضلَ فیه لِأحَدٍ عَلی أحَد وَ لِلمُّتَّقینَ عِند اللّهِ غَدا أحسَنُ الجَزآءَ و اَفضَلُ الثّواب ، لَم یَجعَلِ اللّه ُ الدُّنیا للمُتَّقینَ أجرا و لا ثَوابا و ما عِندَ اللّه ِ خَیرٌ للأبرارِ .
آپ بندگان خدا ہیں اور بیت المال الله کا مال ہے اور میں اس کو آپ کے درمیان مساوی تقسیم کروں گا اور اس میں کسی کو کسی دوسرے پر فضیلت نہیں ہے اور متقین کےلیے آخرت میں الله کے ہاں ان کےلیے بہتریں جزاء اور بافضیلت ثواب ہے ،اللہ نے متقین کے لیے دنیا میں نہ کوئی جزا قرار دی ہے اور نہ ثواب اور وه جو الله کے پاس آخرت میں ہے وہی بہتر و خیر ہے ۔
جب تقریر امیرالمومنینؑ نے کی تو بعضوں کو معلوم ہو گیا کہ پہلے کی طرح اب ہم بیت المال سے مال نہیں بٹور سکیں گے لہذا مخالفت پر اتر آئے اور حتیٰ کہ جنگیں لڑنے تک گریز نہیں کیا ، دوسرے دن طلحة و زبیر آئے اور یہ کہا : ان طلحة و الزبیر أتیا علیا ً بعد ما بایعاه بأیام فقالا:
یا امیرالمؤمنین قد عرفت شدة مؤنة المدینه و کثره عیالنا و ان عطاءنا لایسعنا ، ہمیں جو بیت المال سے حصہ ملتا ہے وه کم ہے اور ہمارے عیال بھی زیاده ہیں اور اس سے ہمارا گزارا نہیں ہوتا لہذا ہمیں بیت المال سے زیاده حصہ دیں تو امیرالمومنینؑ نے فرمایا : فقال: اطلبا الی الناس فان اجمعوا علی ان یعطوکما شیئا ً من حقوقهم فعلت ، آپ جاکرلوگوں سے مانگیں اور اُن سے کہیں کہ ہمیں اپنا حق دے دیں اگر وه دے دیں تو مجھے کوئی مشکل نہیں ہے ، تو پھر ان دونوں نے کہا :قالا: لمن نکن لنطلب ذلک الی الناس و لم یکونوا یفعلوا لوطلبنا الیهم! ، یہ ہم نہیں کہہ سکتے اور اگر ہم کہیں بھی سہی تو لوگ نہیں مانے گے تو اس وقت امیرالمومنینؑ نے فرمایا : قال: فأنا و الله احری ان لاافعل فانصرفا عنه ، خدا کی قسم میں سزاوار تر ہوں کے یہ کام نہ کروں ، جب آپ خود کہہ رہے ہیں کہ لوگ نہیں مانیں گے تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ لوگوں کا مال آپ لوگوں کو دے دے ، پھر اس قاطعیت و عدالت کے نتیجہ میں جنگ جمل برپا ہوئی ہے ۔
یہ ہیں وه علل و اسباب کہ جس کی وجہ امیرالمومنینؑ اتنے مظلوم ہوے کہ اول مظلوم عالم کہلاے ، اسی طرح اس علت کا ادامہ اور باقی علل ان شاء الله آنے والے جلسات کے اندر زیر بحث لائیں گے ۔
برنامہ ماه مبارک رمضان
خطابت : تابعدار حسین
انہوں نے بیان فرمایا کہ ماه مبارک رمضان فوق العاده اہمیت کا حامل ہے ،یہ وہ مہینہ ہے جس میں خدا وند کریم اپنے بندوں پر رحمت کے دروازه کھول دیتا ہے اسی وجہ سے اہل سلوک اس مہینہ کو اپنے لیے سال کا پہلا مہینہ قرار دیتے ہیں ۔
خدا وند کریم نے اس مہینہ کے پہلے عشرہ کو اپنے بندوں کے لیے رحمت قرار دیا ہے تاکہ میرا بنده جب میری طرف حرکت کرے تو سختی میں نہ پڑے بلکہ رحمت خدا اُس کے شامل حال ہو ، رسول اکرم ﷺ فرماتے ہیں هو شهر اوله رحمة و اوسطه مغفرة و اخره عتق من النار؛