ش | ی | د | س | چ | پ | ج |
1 | 2 | 3 | 4 | 5 | ||
6 | 7 | 8 | 9 | 10 | 11 | 12 |
13 | 14 | 15 | 16 | 17 | 18 | 19 |
20 | 21 | 22 | 23 | 24 | 25 | 26 |
27 | 28 | 29 | 30 | 31 |
تحریر؛ تابعدار حسین ہانی
2018 میں مجھے پہلی دفعہ تحصیل علم کے لیے ایران جانا ہوا ، وہاں پر پہنچے ہوئے مجھے ایک سے دو مہینہ گزرا تھا کہ ماه مبارک مضان کے آخری جمعہ کا دن آگیا ، میں نے سنا ہوا تھا که ایران میں یوم القدس بہت اہتمام و بہترین طریقہ سے منایا جاتا ہےاور یہ بھی معلوم تھا که اس دن کو عالمی دن کے طور پر منانےکا آغاز بھی ایران سے ہوا اور اس سنت حسنه کا سہرا بھی ایران کے سر ہے ۔
لہذا میں معینہ وقت سے پہلے،جہاں سے یوم القدس کی ریلی کا آغاز ہونا تھا پہنچ گیا، آہستہ آہستہ لوگ آنے لگے،معینہ وقت پر ریلی کا آغاز ہوا اور یہ ریلی سمندر کا سماں اختیار کرگئی،ایسے لگتا تھا جیسے پورا ایران ہی گھروں سے باہر آگیا ہو ۔
بہرحال ہم اس عظیم اجتماع میں شریک ہوئے اور جمعہ کی نماز کے بعد گھر کی طرف روانہ ہوئے،جس بَس پر میں سوار ہوا ، میرے ساتھ والی سیٹ پر ایک نوجوان بچہ بیٹھا ہوا تھا جس کی عمر شاید 12 سے 14 سال کے قریب تھی ، اس نے مجھے سلام کیا اور میں نے سلام کا جواب دیا ،تھوڑی دیر بعد اسنے مجھ سے سوال کیا آپ پاکستانی ہیں ؟ میں نے جواب دیا جی ہاں میں پاکستانی ہوں ، یہاں سے اس کے اور میرے درمیان مختصر مکالمہ ہوا ، ایک موضوع جس پر چند جملےگفتگو ہوئی وہ اسرائیل کی نابودی تھی ۔
میں نے سُن رکھا تھا کہ ایرانی انقلابی جوان کافی با معرفت ہوتے ہیں اور اسکی کئی ایسی مثالیں شھداء دفاع مقدس کے بارے میں مختلف کتابوں میں پڑھنے کو ملی تھی لیکن ابھی تک کسی زنده مثال کا مشاہده نہیں ہوا تھا ۔
اسرائیل کی نابودی کےحوالے سے جو چند جملے اس جوان سے گفتگو ہوئی اُن میں سے ایک جملہ یه تھا ، مَیں نے اس جوان سے کہا کہ ماشاء اللہ ایران میں انقلاب اسلامی کے بعد سے کافی بیداری آچکی ہے ، یوم القدس کا اتنا بڑا اجتماع میں نے کہیں پر نہیں دیکھا ،اس بیداری سے ظاہر ہوتا ہے اسرائیل کی نابودی نزدیک ہے کیونکہ قومیں آہسته آہسته بیدار ہورہی ہیں ۔
تو اس جوان نے میری طرف دیکھا اور کہا کہ اسرائیل کو تو ایک دن ضرور نابود ہونا ہے ، اصلا یہ امکان نهیں ہے کہ اسرائیل نابود نہ ہو ، مہم یہ ہے کہ آخر کس کے ہاتھوں سے نابود ہوگا ؟ اس کی نابودی میں همارا کتنا حصہ ہوگا ؟کہیں ایسا نہ ہو کہ اسرائیل نابود ہوجائے اور ہمارا اس جہاد فی سبیل الله میں کس حوالے سے کوئی حصہ نہ ہو ، یہ خطرناک ہے ۔
سچ پوچھیں تو اُس وقت میں اس جوان کے یہ جملے سُن کر حیران ہوگیا کہ اس عمر میں اتنی معرفت ؟
یہ واقعہ اس لیے نقل کیا ہے کیونکه آج اسرائیل کی نابودی ان شاء الله نزدیک ہے ، لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ کس کے ہاتھوں سے ؟ ہمارا کتنا حصہ ہے اس ظلم کے خلاف ؟ ہم کہاں پر کھڑے ہیں ؟ کہیں تاریخ میں ہمیں یہ تو نہیں کہا جائے گا کہ اتنے زیاده مسلمانوں کے ہوتے ہوئے ، اسرائیل نے کیسے فلسطینوں پر ظلم کیا؟ جیسے آج ہم کہتے ہیں اتنے صحابہ کے ہوتے ہوئے نواسہ رسول الله ﷺ کو کربلا میں کیسے شہید کیا گیا ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہا جائے گا کہ فلسطین کو فقط ایرانی ، لبنانی و یمنیوں نے آزاد کرایا تھا ،پس اُس وقت 25 کڑوڑ پاکستانی کیا کر رهے تھے؟
اُس وقت ہم کیا کہیں گے ؟ یہ کہیں گے کہ پاکستانی کرکٹ کھیل رہے تھے یا پپ جی کھیل رہے تھے یا سوشل میڈیا کی لہویات میں مشغول تھے ۔
ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اسرائیل نے ہر صورت میں نابود ہونا ہے ، کیونکہ یہ ایک جنایتکار گینگ ہے جن کے پاس اس ظلم کی نہ کسی دین سے مشروعیت ہے حتی یہودیت سے، نہ کسی عُرف سے مشروعیت ہے اور نہ کسی بھی معاشرہ سے مقبولیت ہے ، اسرائیل کی مشکل ، مشکل وجودی ہے ، اسکا وجود سرے سے مورد اشکال ہے لہذا جس کا وجود قابل اثبات نہ ہو اسکو مٹانا و نابود کرنا کوئی مشکل امر نہیں ہے ، سید مقاومت کے بقول ، اسرائیل مکڑی کے جال سے بھی کمزور ہے ۔
لیکن قابل توجہ یہ امر ہے کہ آج کے فتح خیبر میں ہمارا کتنا کردار ہے ؟ آیا اسرائیل کے خلاف ثقافتی جنگ میں ہمارا کتنا سہم ہے ؟ سیاسی جنگ میں ہمارا کتنا سہم ہے؟ اقتصادی جنگ میں ہمارا کتنا حصہ؟ میڈیا کی جنگ میں ہمارا کتنا حصہ ہے؟ رہبر معظم کے فرمان پر ہم کتنا جہاد تبیین کر رہے ہیں؟
یہ وہ نکتہ ہے کہ جس کی طرف ہمیں توجہ کرنے کی ضرورت ہے ،تنہائی میں ہمیں خود سے یہ سوال کرنے چاہیے اور اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے
بنیان مرصوص اسلامی فکری مرکز