ارادوں کی جنگ




تحریر ؛  تابعدار حسین هانی


کافی عرصہ سے جنگی میدانوں کی ماہیت تبدیل ہوچکی ہے ، قدیم  زمانے میں جنگ کی جیت  کسی بھی ملک یا زمین پر قبضه کرنے سے ہوتی تھی لیکن اب جنگ میں جیت کا  پہلا قدم فہم  ، عقل ، فکر و سوچ  اور دلوں کو تبدیل کرنا ہے ۔

اس کی بہترین مثال آمریکہ کا 2003  میں عراق پر حملہ کرنا ہے ،  جس میں  آمریکہ نے عراق کی سرزمین پر قبضہ کرنے سے پہلے  تقریبا  ایک سال تک  میڈیا کے زریعے سے عراق پر حملہ آور ہوا  ، ارادے سُست کیے اور اس کے بعد چند دنوں میں عراق کو اپنے قبضے میں لے لیا اور اُس پر حاکم ہوگیا ۔

اس طرح کی فراوان مثالیں آپ کو تاریخ میں ملیں گی ،  ارادوں  کی جنگ کا محکم ارتباط  شناختی جنگ کے ساتھ ہے ،  شناختی جنگ سے مراد  ایسی جنگ هے که جس جنگ میں میدان ِجنگ معاشره کے پڑھے لکھے لوگ اور عام انسانوں کی سوچ  و فکر ہے ، اس معنی میں کہ عوام اور پڑھے لکھے  طبقہ کی فکری صلاحیت  کو تبدیل کیا جاتا ہے  ، پہلے ان کے اعتقادات پر حملہ کیا جاتا ہے اور پھر انکے رہن سہن  کو تبدیل کیا جاتا ہے  ،  یہ جنگ ، نفسیاتی جنگ سے کئی گنا پچیده و خطرناک ہے ،  اس جنگ کا بنیادی نتیجه  مضاعف انسانی ہے ، یعنی  فیزیکلی جنگ میں جب ایک سپاہی مارا جاتا ہے تو فقط ایک نفر کم ہوتا ہے  ، جبکه  شناختی جنگ  میں جب ایک انسان اپنے عقائد میں مردد ہوتا ہے  تو ایک نفر  کم ہونے کے ساتھ ساتھ دشمن کی صف میں ایک بندہ اضافہ بھی ہوتا ہے ، اس صورت میں  کسی بھی دین و ملک کا اصلی سرمایه (عوام)  مورد حملہ واقع  ہوتا ہے اور  اپنے ملک و اعتقادات کے متعلق بد بین ہوجاتا ہے  ،  اگر یه جنگ طول پکڑ لے تو  عوامی طبقہ  کے اندر ایک شکاف پیدا ہوجاتا ہے جو بلآخر بحران کی شکل اختیار کرلیتا ہے ۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے که ارادوں  کی جنگ میں  اصلی ترین ہتھیار میڈیا ہے ،  اور میڈیا کی مدد سے مخاطب کے ذهین کو اس طرح سے  واش کیا جاتا ہے که مخاطب اس واقعه یا حادثہ کو اس  نگاه سے دیکھتا ہے جس نگاہ سے میڈیا عوام کو دکھانا چاہتا ہے ،  اگر میڈیا کی  ذمہ داری  ارادے سست کرنا ہو تو سست کرتا ہے اور اگر ارادہ مظبوط کرنا ہو تو مظبوط کرتا ہے  ، البتہ یہ ہمارے ذہین میں رہے کہ میڈیا خود جنگ نہیں بلکہ ایک جنگی ہتھیار ہے  اصلی جنگ ، ارادں کی جنگ ہے اور میڈیا کو اپنے دشمن کے ارادے کمزور کرنے کے لیے  آلہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔

مقام معظم رہبری نے اپنے خطبات کے اندر کئی بار اس  امر پر تاکید کی ہے که آج اُمت اسلامی ہوشیار رہے کیونکہ آج اس کے ساتھ ارادے کی جنگ لڑی جارہی ہے  اور اُمت اسلامی کے حوصلے پست کرنے کےلیے اُن کے اراده کمزور کئے جاتے ہیں ۔

اور آج ہمارے لیے یہ بات روشن ہے کیونکه اگر ہم 57 اسلامی ممالک  پر نظر دوڑائیں تو ہمیں دو قسم کے ممالک نظر آئیں گے ایک وه ممالک جن  کے پاس ہر چیز هونے کے باوجود ذلیل ہیں اور کچھ ایسے ممالک  ہیں جو تمام تر سختیوں اور مشکلات کے باوجود اور وسائل کم ہونے کے باوجود دنیا میں عزت مندانہ زندگی گزار رہے ہیں مثلا تمام عربی ممالک  ، ترکی ، پاکستان و غیره کو اگر دیکھیں تو سب کچھ ہونے کے باوجود آمریکه اور اسرائیل کے غلام ہیں اور انکی اجازت کے بغیر اپنے ہی ملک کے اندر  کوئی کام  نہیں کرسکتے بلکہ چھوٹے سے چھوٹے مسئله کےلیے شیطان اکبر آمریکہ سے اجازت لینی ہوتی ہے  ، کیوں ان ممالک کے ساتھ ایسا ہوا ہے ؟ اس وجہ سے کہ سب سے پہلے انکو شناختی جنگ کے اندر شکست دی گئی  اور انکے اعتقادات کو ترقی کے نام پر کمزور کیا گیا ، انکو اپنا ہمفکر بنایا گیا ، اگر ساده الفاظ میں کها جائے تو انکی سوچ کو غلام بنایا گیا اور ان پر ارادے کی جنگ مسلط کی گی اور  انکے ارادے سست کئے گے اور یہ تلقین دلائی گی کہ آپ کچھ نہیں کر سکتے ، اگر ہم آپ کا ساتھ چھوڑ دیں تو آپ لوگ بھوک سے مر جائیں گے  آپ ڈیفالٹ ہوجائیں گے  ، انکی سوچ پہلے سے غلام تھی اور ساتھ میں ارادے بھی سست پڑ گئے اور دشمن نے بغیر حمله کیا ان ممالک کو تسخیر کر لیا  اور آج یہ ممالک جلتے ہوئے فلسطین کو دیکھ رہے ہیں لیکن انکے گلے خشک ہیں اور یہ اس قابل بھی نہیں ہیں کہ ایک بیان تک دے دیں ۔

دوسری طرف اسلامی ممالک میں چند  انگشت شمار ملک ایسے بھی ہیں جنکے اوپر دشمن کی شناختی جنگ نے کوئی اثر نہیں کیا اور انکی سوچ کو غلام نہیں بنا سکے اور اسی طرح دشمن کی ارادوں  کی جنگ نے بھی کسی قسم کا اثر نہیں کیا اور انکے ارادے کمزور نہیں کرسکے جن میں سر فہرست  ایران اسلامی ہے جنکو انقلاب اسلامی سے لیکر آج دن تک مختلف جنگوں میں رکھا  گیا  ، جب اس حربہ نے اثر نہیں کیا پھر سخت ترین پابندیاں لگائی گئیں ، انکے سائنسدانوں کو ٹارگٹ کیا گیا  ، انکے دانشمندوں کو ٹارگٹ کیا گیا ، انکے سیاستدان شہید کئے گے لیکن اس قوم نے ذلت قبول نہیں کی  ، کیونکہ انکے ارادے پختہ تھے انکے اراده کمزور و سست نہیں پڑے ۔

اسی طرح فلسطین کو دیکھیں ، یمن کو دیکھیں  ، لبنان کو دیکھیں ، سوریا  و عراق کو دیکھیں یہ وہ ممالک ہیں جن کے پاس کچھ بھی نہیں تھا  اور دشمن انکو اپنا غلام بنانا چاہتا تھا لیکن انہوں نے غلامی کی زنجیریں توڑ  ڈالی ، انہوں نے سختیاں قبول کی لیکن غلامی قبول نہیں کی ، یمنیوں نے  سعودیہ کے ساتھ  سات  سال جنگ لڑی اس وقت پوری دنیا سعودیہ کے ساتھ تھی اور یمنی مجاہد تک تنها تھے  ، ان مجاہدوں کے پاس پہننے کےلیے جوتے بھی نہیں تھے لیکن اپنے دشمن کو ،ناکوں چنے چوبائے ،  اور آخر کا ذلت آمیز شکست دی  ، اس حوصلے و جزبہ کے پیچھے راز یہ ہے کہ انہوں نے شناختی جنگ میں اور ارادوں  کی جنگ میں پورے 100 نمبر لیے ، اپنے ارادے سست نہیں ہونے دیے  ، اپنے ارادے کمزور نہیں ہونے دیے  اور آج پوری دنیا میں سربلند ہیں  اور رهیں گے ۔ ان شاء الله

علامہ اقبال ؒ کے بقول

ارادے جن کے پخته ہوں نظر جنکی خدا پر ہو

طلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے

لہذا آج وہ قوم و ملت کامیاب ہوگی جو ارادوں کی جنگ میں کمزور نہیں پڑے گی اور اپنے ارادے سست نہیں ہونے دے گی ، جس قوم کے ارادے سست و کمزور پڑ گئے غلامی انکی قسمت بن جائے گی ۔

بنیان مرصوص اسلامی فکری مرکز

نظرات 0 + ارسال نظر
برای نمایش آواتار خود در این وبلاگ در سایت Gravatar.com ثبت نام کنید. (راهنما)
ایمیل شما بعد از ثبت نمایش داده نخواهد شد