ش | ی | د | س | چ | پ | ج |
1 | 2 | 3 | 4 | 5 | ||
6 | 7 | 8 | 9 | 10 | 11 | 12 |
13 | 14 | 15 | 16 | 17 | 18 | 19 |
20 | 21 | 22 | 23 | 24 | 25 | 26 |
27 | 28 | 29 | 30 | 31 |
سوال: میرے پاس ایک زمین تھی کہ جو میرے والد نے تحفے میں دی تھی اور ایک عرصے کے بعد میں نے وہ زمین فروخت کردی، کیا اس کی فروخت سے حاصل ہونے والے پیسوں پر خمس ہوگا؟
جواب: تحفہ ملنے کے وقت اصل زمین (اور اس وقت کی مالیت) پر خمس نہیں ہے لیکن اس کی بڑھنے والی قیمت کے سلسلے میں اگر زمین کو قیمت بڑھنے یا خرید و فروخت کی نیت سے رکھا ہوا تھا تو بنا بر احتیاط واجب (افراط زر کی مقدار کو منہا کرنے کے بعد) فروخت والے سال کی آمدنی شمار ہوگی کہ اگر سال کے آخر تک باقی رہے تو اس پر خمس ہوگا، بصورت دیگر اس کی بڑھنے والی قیمت پر بھی خمس نہیں ہوگا۔
سوال: کیا کاروبار اور پیشے کے اوزاروں کا خمس ایک بار ادا کردینا کافی ہے یا ضروری ہے کہ ہر سال ان کی بڑھنے والی قیمت کا خمس ادا کیا جائے؟
جواب: ان کا خمس ادا کردینے کے بعد جب تک انہیں فروخت نہ کیا جائے ان پر خمس نہیں ہے اور فروخت کردینے کے بعد ان کی بڑھنے والی قیمت ﴿افراط زر کو منہا کرنے کے بعد﴾ فروخت والے سال کی آمدنی شمار ہوگی اور اگر خمس کی تاریخ تک زندگی کے اخراجات میں خرچ نہ ہو تو اس کا خمس دینا ہوگا۔