اُمت اسلامی دشمن کے نامرئی حملوں کی زد میں

تاریخ                            

 26 ربیع الاول 1442 ھ ق

12 نومبر 2020

تحریر  ؛ تابعدار حسین 

قدیم زمانے میں دشمن کی پهچان آسان تھی اور اسی طرح دشمن کے تمام هتھیاروں کے بارے میں معلومات لینا بھی کوئی مشکل کام نهیں تھا اور بیشتر جنگیں بھی آمنے سامنے هوا کرتی تھیں اور اسی طرح هر دو طرف سے لڑنے والے فریق بھی اُس وقت کے قواعد و ضوابط کے پابند هوا کرتے تھے مگر بهت کم ایسے نمونه تاریخ میں ملتے هیں جو بهت هی رذیل و پست تھے لیکن بیشتر قوانین کی پاسداری کرتے تھے ، البته یه قوانین اُن کی غیر منطقی عقلوں کی نمائندگی کرتے تھے لیکن جو  بھی تھا اس کے پابند هوا کرتے تھے ، همیں تاریخ میں بهت سے ممالک کے درمیان ، اسی طرح قوم و قبائل کے درمیان حتی مختلف ادیان کے درمیان جنگیں ملتی هیں ، جس میں ایک چیز سب کے نزدیک ثابت هے۔

 اور وه یه هے که هر فریق کو معلوم هوا کرتا تھا که میرا دشمن کون هے اس کے پاس کیا هتھیار هے اس نے کس مقام پر کس هتھیار کے ساتھ حمله کرنا هے حتی یه روش پندرویں و سولهویں صدی میلادی تک بھی آسانی کے ساتھ نظر آتی هیں ، اگر هم دو جملوں میں اِن مطالب کو بیان کرنا چاهیں تو کہہ سکتے هیں که درست هے وه جنگی تدابیر استعمال کرتے تھے لیکن اُس زمانه میں جنگی منافقتیں نهیں تھیں اگر تھیں تو بهت کم ،  اُسکی وجه یه هے که وه اِس پیشرفته دور میں زندگی نهیں کر رهے تھے ۔

لیکن آج کا زمانه اُس زمانه کے ساتھ فرق کرتا هے ، آج کا دشمن دکھائی نهیں دیتا ، اُس کے هتھیار کو دیکھنے کے لیے غیر معمولی آنکھوں کی ضرورت هے ، چونکه یه معمولی آنکھوں سے نظر آنے والے نهیں هیں ، آج کا انسان جس دشمن کے خلاف گلی ، کوچوں میں نعرے لگا رها هوتا هے ، اُسی کے گھر میں دشمن کا فحاشی پھیلانے والا هتھیار موجود هوتا هے اور  اِس کو معلوم تک نهیں هوتا ،  یا  یه  اِس کو اصلا دشمن کا هتھیار هی نهیں سمجھتا بلکه کهتا هے که میں نے تو اس کو خبریں سننے کے لیے رکھا هوا هے یا کهتا هے که میں نے اِس پر دینی چینل چلانے کے لیے رکھا هوا هے ، هم بھی حُسن ظن رکھتے هوئے پوچھنا چاهتے هیں ، اگر آپ نے فقط خبروں کے لیے رکھا هوا هے تو بس اِس کو چھت په کیوں رکھا هوا هے ، کیا چھت په زیادی خبریں سناتا هے ؟  نه چھت پر غربی و عبری و عربی چینل زیاده دیتا هے ، درحقیقت آج کا دشمن اپڈیٹ هے اور اُس کو پته هے کونسی جگه پر اور کس هتھیار کے ساتھ حمله کرنا هے ، لیکن دوسری طرف سے بصیرت کی ضرورت هے جس کی شدت کے ساتھ اسلامی معاشرے میں کمی هے ۔

یهاں پر هم نے یه تو ایک ساده سی مثال دی هے جو که آج کے دور میں پُرانی شمار هوتی هے اور اب بات یهاں سے بڑھ چکی هے ، اب دشمن نے اپنے هتھیاروں کو اُمت اسلامی کے هاتھوں میں پهنچا دیاهے اور ساتھ هی ذهنوں کو مفلوج کر دیا هے اور هم دشمن کے هتھیار سے اپنے اُوپر حمله کرتے هیں اور خود کو ، اپنے عقائد کو ، اپنے افکار کو زخمی کرتے هیں ، اور یه ایسا نهیں که همیں معلوم هوتا هے اور هم جان بوجھ کر اپنے عقائد ، افکار و سوچوں کو زخمی کرتے هیں ، بلکه یه سب کچھ هم نه جانتے هوے اور لاعلمی میں انجام دیتے هیں ، اسی لیے شروع میں کها که آج کا دشمن و اُس کا هتھیار  نامرئی و نظر نه آنے والا هے ، لهذا اُمت اسلامی کے اندر شعور ، بصیرت و بیداری کی ضرورت هے ۔

چونکه هماری یه تحریر آج کی مناسبت کے حوالے سے هے لهذا جاتے هیں اپنے اصلی موضوع کی طرف ، البته هم آج کی مناسبت کے حوالے سے جو مطلب بیان کرنے جارهے هیں اگر مبالغه نه هوتو اُردو زبان میں بهت کم بیان هوا هے ، اور اس مطلب کا شروع میں بیان شده مقدمه کے ساتھ گهرا ربط هے بس وه مطالب بھی ذهن میں رهے ۔

سب سے پهلے یه بتاتے چلیں که آج یعنی 26 ربیع الاول کو حضرت امام حسن علیه السلام و معاویه کے درمیان صلح کا عمل انجام پایا ، جو تاریخ کی تلخیوں میں سے ایک ایسی تلخی هے جس کے انجام پر امام حسن علیه السلام کو بهت رنج و تکلیف برداشت کرنا پڑی ، اور یه مناسبت صلح امام حسن علیه السلام کے نام سے مشهور هے ۔

اس صلح نامه کے بهت سے پهلوں هے جن پر بزرگان کی متعدد کتابیں لکھی جا چکی هیں اور اس کے مختلف پهلوں کو بیان کیا گیا  هے اور هم یهاں پر نهایت هی اختصار کے ساتھ ایک پهلو کو بیان کریں گے ۔

هم نے آغاز میں بیان کیا هے که آج کا  دشمن اسلام ، اسلام کے ساتھ دشمنی میں بهت آگے تک جا پهنچا هے اور جن هتھیاروں سے مسلمانوں کے خلاف میدان میں نبرد آزما هے اُن میں بهت سے نامرئی هتھیار هیں ، جن کو سمجھنے کےلیے ایک عام انسان قاصر هے اور یه خواص کی  زمه داری هے که وه عوام کو اِن سے آشناء کریں ۔

اُن هتھیاروں میں سے جدید ترین هتھیار جو دشمن استعمال کر رها هے وه مختلف دینی ، سماجی ، سیاسی، معاشرتی و فرھنگی کلمات و الفاظ ( یعنی اصطلاحات ) کا اسلامی معاشرے میں مسلمانوں کی زبانوں سے غلط استعمال کروانا هے ۔

 ان الفاظ کا غلط معنی دشمن کی طرف سے اسلامی معاشروں میں پھیلایا جا رها هے اور افسوس کے ساتھ مسلمان اس المیه کی طرف متوجه نهیں هے ۔

هم یهاں پر اُن میں سے چند اصطلاحات کی طرف اشاره کرتے هیں جو که درجه ذیل هیں ۔

آزادی

اسلام بھی آزادی کا قائل هے بلکه تمام موجوده و غیر موجوده ادیان سے زیاده آزادی کو بیان کیا هے۔

لیکن دشمن نے اسی مفھوم کے معنی کو توڑ مروڑ کر  آج اسلامی دنیا میں آزادی کا نعره لگایا هے لیکن کون سی آزادی؟ مغرب دنیا نے مسلمانوں کی طاقت و قوت کو ختم کرنے کے لیے غلط معنی کے ساتھ اسلامی معاشره میں داخل کیا هے ، اور کها آزادی یعنی بے دینی ، انسان آزاد هے یعنی انسان حیوان هے جو مرضی کرتا رهے اس کے لیے کوئی قانون و شریعت نهیں هونی چاهیے چوں انسان آزاد هے ، اور اس نعره کی اس طرح سے اسلامی ممالک میں تبلیغ کی که پاکستان جیسے اسلامی ملک کے دارالحکومت میں میرا جسم میری مرضی کے نعره حکومت و نام نهاد فضله خور میڈیا کی سرپرستی میں لگاے گئے اور یه جن لوگوں نے آکر روڈوں پر نعره لگاے یه کوئی غیر مسلم نهیں تھے بلکه اسلامی ریاست میں رهنے والے مسلمانوں کے گھروں سے آئے تھے ، بس اسلامی معاشرے میں یه نامرئی هتھیار اثر کرتا هے اور یه هتھیار ایٹم بمب سے زیاده خطر ناک هے  ۔

در حالیکه اسلام نے آزادی کو اس معنی میں استعمال نهیں کیا بلکه اسلام کی آزادی ، انسان کو سب سے پهلے اپنے نفس کے شھوانی زندان سے آزاد کرتی هے ، اسلام میں آزادی یعنی غلامانه زندگی جرم هے ، یعنی عزت کی موت کو ذلت کی زندگی پر ترجیح دینا ، آزاد انسان یعنی خوددار ، آزاد یعنی باعفت ، آزاد یعنی باشرافت ، آزاد یعنی با عزت ۔۔۔

اب دشمن نے اس مقدس کلمه کو غلط معنی کے ساتھ اس طرح داخل کیا که اس نے سب سے پهلے لا شعورا مسلمانوں کے عقائد پر اثر انداز هوا اور پھر عملی زندگی میں ۔

وطن

اسی طرح لفظ وطن کو غلط معنی کے ساتھ استعمال کیا ، اگر ملک خداداد میں کوئی مصلح آے جو فساد کو ملک سے ختم کرنا چاهتا هو ، فورا اس پر هجوم هوتا هے که یه تو وطن کے ساتھ خیانت کرنا چاهتا هے ، یه تو آئین کی مخالفت کرنا چاهتا هے ، مثلا اگر آپ نے ملک میں ولایت کی بات کی تو فورا آپ کو اپنے هی کهیں گے بات تو آپ کی ٹھیک هے لیکن همارا أئین بھی تو هے بس مشکل هے یه بات کرنا ، جبکه یه دونوں موضوع بالکل جدا هیں ، ایسا کیوں کها جاتا هے اس لیے که یه فکر دشمن کی طرف سے اسلامی معاشرے میں داخل کی گئی هے اور پھر اس کو رائج کیا گیا اور اب یه سب کا عقیده بن گیا هے اور نصف صدی گزر گئی ملک میں اس بے شعوری نے ترقی کے راسته کو روکا هوا هے ۔

ولایت

اسی طرح ولایت کا غلط معنی رائج کیا گیا هے البته اس میں تو پوری ایک داستان هے ، اس عظیم قرآنی و الهیٰ اصطلاح کے ساتھ وه کام کیا گیا که آج همارے ملک میں وه طبقه که جو جهالت کی عوج پر پهنچا هوا هے وه ولایت کے ٹھیکه دار بنے هوے هیں اور جو ولایت کا معنی کرتے هیں ، پوری تاریخ میں اس مقدس اصطلاح کے ساتھ ایسا ظلم نهیں هوا ، اور اگر کوئی مصلح  آکر اس تحریف سے پرده اُٹھانے کی کوشش کرے تو سب هاتھ دھو کر اُس کے پچھے بهتان و تهمت و دشنام کا سلسله شروع کر دیتے هیں ، سب سے بڑی تهمت جو لگائی جاتی هے وه یه که یه دشمن علیؑ هے اور اس طرح سے چُپ کرانے کی کوشش کی جاتی هے اور بهت سارے چپ هو بھی جاتے هیں ، اب یه فکر کس نے پیدا کی ، که جو بھی ولایت کو صیح معنوں میں پیش کرے اس کو دشمن علیؑ کهه کر چپ کرا دی جاے ؟  جی اس فکر کی کاشت برطانیه سے هوئی هے  اور  دشمن نے داخل کیا هے، اور بعض نادان اسکو مومنین کے خلاف استعمال کرتے هیں ۔

اسی طرح اگر کچھ انقلابی جوان معاشره میں امر بالمعروف و نهی عن المنکر انجام دے رهے هوں تو اُن کے اُوپر شدت پسندی کے فتوے لگاے جاتے هیں ، اور کهتے هیں یه شدت پسند هیں ، اس طرح سے اُن کو بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی هے تاکه لوگوں کے ذهن میں یه بات راسخ هوجاے که واقعا یه شدت پسند هیں ، جب کسی کے بارے میں ایسی فکر  پیدا هو گی تو کون حاضر هے که جو ان کی بات سنے ، بالآخر یه شدت پسندی کی اصطلاح کو ایک واجب و نیک کام کے مقابلے کس نے لایا ؟ کس نے یه فکر بنائی که جو بھی امر بالمعروف کرے وه شدت پسند هے؟  یه دشمن کا هتھیار هے جو مسلمانوں کے هاتھوں میں دیا گیا هے جو مسلمان ایک دوسرے کے خلاف چلا رهے هیں ۔

صلح امام حسن علیہ السلام

اُنهی اصطلاحات و  الفاظ میں سے ایک صلح امام حسنؑ هے که جس کو اپنے ذاتی مقاصد حاصل کرنے کےلیے، اپنی جماعت کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے ، یا اپنی بے کفایتی و بزدلی کو چھپانے کے لیے استعمال کیا جاتا هے اور اپنے کاموں کی توجیه پیش کرنے کے لیے صلح امام حسنؑ کا سهارا لیا جاتا هے ، اور کها جاتا هے امامؑ نے بھی تو معاویه کے ساتھ صلح کی تھی در حالیکه آج کے حالات و اُس زمانه کے حالات کاملا مختلف هیں ، اُس زمانه کے شیعه کی طاقت میں اور آج کے شیعه کی طاقت میں زمین و آسمان کا فرق هے ۔

بعض صلح امامؑ کو غلط معنی میں لاشعوری طور پر استعمال کرتے هیں اور بعضوں کو معلوم نهیں هوتا که اس طرح کی باتیں دشمن کی ایماء پر اُن سے کرائی جا رهی هیں ۔

اسی مطلب کے متعلق  رهبر معظم حفظه الله سے سوال کیا گیا که کیا امکان هے که صلح امامؑ آج کے دور میں تکرار هو ؟ رهبر معظم حفظه الله نے فرمایا ؛

امروز دشمن قادر نیست، امروز آمریکا و بزرگ‌تر از آمریکا به برکت ملت هوشیاری مثل ملت ایران، قادر نیستند بر دنیای اسلام امروز حادثه‌ای مثل حادثۀ صلح امام حسن (ع) را تحمیل کنند؛ دشمن اگر خیلی فشار بیاورد، حادثۀ کربلا اتفاق خواهد افتاد ۔


ترجمه 


آج دشمن اتنا طاقتور نهیں هے که دنیا اسلام پر واقعه مانند صلح امام حسنؑ کو تکرار کرے ، اگر دشمن نے بهت دباؤ ڈالا تو ، کربلا برپا هو گی ۔


لهذا ایسا نهیں هے که هر کوئی آے اور اپنے کام کی توجیه صلح امام حسنؑ سے کرے اور اُمت اسلامی کو چکر دے ۔


لهذا اُمت اسلامی کے لے بھی ضروری هے که اپنے  اندر بیداری ، شعور و بصیرت پیدا کرے اور دشمن کے نامرئی هتھیاروں کی طرف توجه کرے ۔ 


والسلام

 

  

 

 

 

نظرات 0 + ارسال نظر
برای نمایش آواتار خود در این وبلاگ در سایت Gravatar.com ثبت نام کنید. (راهنما)
ایمیل شما بعد از ثبت نمایش داده نخواهد شد