وائے ناکامی !متاع کارواں جاتا رہا

(حصہ دوم)

تحریر: تابعدار حسین

 جیسا کہ سابقہ تحریر میں بیان ہوا ہے(سابقہ تحریر حاصل کرنے کیلے یہاں کلیک کریں) آج کارواں کاملا بدون متاع باقی رہ گیا ہے اور اُن کی نظریں دوسروں کی متاع پہ ہیں کہ شاید دوسروں کی متاع ہمیں نجات دلائے اُدھر سے ستر سالہ قومی تجربہ بتاتا ہے کہ دوسروں کی متاع فقط اپنے صاحب کو فائدہ دیتی ہے ۔

ایک عظیم متاع جو ہم نے کھو دی ہے  جو ہماری شناخت و تشخص تھی اور آج ہمارا معاشرہ اس سرمایہ سے خالی ہے اور اُس ابزار تشخص سے محروم ہے وہ ہماری قومی زبان ہے ۔

آج ہم زمین پہ شاید اُن نادر اقوام میں سے ہیں جنکے ملک میں اُنکی اپنی زبان قانونی طور پر و عملی طور پر نافذ نہیں ہے اور یہ امر قوموں کے زوال کی علامت ہے البتہ حکمران طبقہ جوکہ مغرب کے غلام ہیں ، ظاہری طور پر (اُردو ہماری قومی زبان ہے) کی رٹ لگاتے ہیں لیکن عملا مغرب نواز ہیں اور انکے دفتروں میں تمام دفتری امور انگریزی میں انجام پاتے ہیں حتیٰ ان کی شخصی زندگی تک غلامی نے سرایت کی ہوئی ہے  اور پھر اس غلامی نے صاحب اقتدار طبقہ سے عوام میں سرایت کی ہے ، لوگوں کا دین تو ویسے حکمرانوں کا دین ہوا کرتا ہے ؛ دین الناس علی ملکوہ اور یہ غلامی ایک بڑی زنجیر ہے جس کو توڑنے میں ہی قوم کی نجات ہے وگرنہ ہمیشہ غلام ہی رہیں گے ۔

القصہ! ابدی موت مرجانا غلام قوموں ہی کا مقدر ہوتا ہے

نے نصیب مارو کثردم نے نصیب دام دو

ہے فقط محکوم قوموں کیلئے مرگ ابد!

 

آج ہمارے تمام تعلیمی اداروں کا نصاب انگریزی زبان میں ہے اور ان تعلیمی اداروں میں طالب علموں کو یہ باور کرایا گیا ہے کہ جو انگریزی زبان پڑھنا ،لکھنا سیکھ جائے و ہ سب سے زیادہ پڑھا لکھا و عالم انسان ہے ۔

جبکہ ناداں یہ نہیں جانتے کہ زبان اور علم کے درمیان فرق ہے ہر وہ انسان جو  زبان سیکھ جائے وہ عالم نہیں کہلاتا بلکہ علم و زبان دو جدا چیزیں ہیں ۔

آزادی افکار ہے ان کی تباہی

رکھتے نہیں جو فکر و تدبر کا سلیقہ

یہ وہی نقطہ انحراف ہے جہاں سے ٹرین کا پٹری سے کانٹا بدلا گیا اور ٹرین کو کہیں اور موڑ دیا گیا اور ہم ناداں یہ سمجھ بیٹھے کہ سَر نے ہماری تقدیر بدل دی ہے اوراب ہم ترقی کی طرف جارہے ہیں جبکہ دشمن نے بہت ہی آسانی سے ہمارا رُخ زوال کی طرف پھیر دیا  اور ہم نے احساس تک نہیں کیا ، اس طرح سے کہ کارواں کا یہ رُخ پھیرنا کارواں کو اتنا پسند آیا کہ کارواں کے دل سے احساس زیاں تک نکل گیا ۔

وائے ناکامی متاع ! کارواں جاتا رہا

کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

اور آج کارواں کی یہ حالت ہے کہ تمام تر متاع لٹانے کے باوجود احساس زیاں پیدا نہیں ہوا ، بیدار دشمن نے ہمیں سُلا کے رکھ دیا اور اب جو بیدار شخص بھی اس کارواں کو جگانا چاہتا ہے وہ اس کارواں کو بُرا لگتا ہے  اور دشمن یہی چاہتا تھا کہ یہ کارواں سوتا ہی رہے اور دشمن کا یہ حربہ کارآمد ثابت ہوا  ۔


خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر 
پھر سُلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری 
جادوئے محمود کی تاثیر سے چشمِ ایاز 
دیکھتی ہے حلقۂ گردن میں سازِ دلبری(1)

جب ہم نے یہ متاع لٹا دی تو آج ہم اس قدر اندر سے خالی و کھوکھلے ہو گئے کہ ہر چیز میں دوسروں کے محتاج و غلام بن کے رہ گئے اور افسوس کہ ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ دنیا میں ہم اس قدر گر گئے کہ آج2024 میں پاکستانی سبز پاسپورٹ ارزش و قیمت کے لحاظ سے دنیا میں نیچے سے پانچویں نمبر پر آیا ہے یہ حالت ایک دفعہ سے نہیں ہوئی بلکہ آہستہ آہستہ اس حالت تک لایا گیا ، لیکن جس قوم کے اندر سے روح نکال دی گئی ہو ، اُس کی مثال اُس بدن سی ہے کہ جس کو سُن کر کے اُس کے اندر سے گرُدہ یا کوئی اور عضو نکال دیا جاتا ہے اور اُس بدن کو احساس تک نہیں ہوتا ۔

تھا جو ’نا خوب‘ بتدریج وہی ’خوب‘ ہوا 
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر ! (2)

 

 

 1۔ (سلطنت، خضر راہ ، بانگِ درا)

2 ۔ (تن بہ تقدیر، ضرب کلیم)

بنیان مرصوص اسلامی فکری مرکز

وائے ناکامی! متاعِ کارواں جاتا رہا

(حصہ اول)

تحریر : تابعدار حسین

ایک چیز جس کا ہمیشہ افسوس رہا ہے اور اس کے بارے میں ہمیشہ ناقابل تلافی غفلت کا احساس رہاہے اور  شاید ہر منصف و زندہ ضمیر انسان ، زندگی میں ضرور اس  احساس زیاں کی طرف متوجہ ہوتا ہے کہ ہم نے بحثیت قوم باقی سرمایہ کی طرح اپنے گراںبھا سرمایہ قومی زبان کے ساتھ کتنا ظلم کیا ہے ، ممکن ہے بعضوں کو یہ احساس زیاں بھی نہ ہو ۔

وائے ناکامی! متاعِ کارواں جاتا رہا

کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں پر قوم وملت کو کارواں کے ساتھ تشبیہ دی ہے ، ملت وقوم جو ایک کارواں کی مانند ہے اس کی متاع( سرمایہ) لوٹتا رہا لیکن اس قوم وملت نےنہ فقط اپنے سرمایہ کو نہیں بچایا بلکہ اُنکو احساس زیاں تک نہیں ہوا کہ ہمارا کچھ لُٹ رہا ،  احساس زیاں اُس وقت ختم ہوتا ہے جب انسان اپنے کاموں سے راضی ہو اور وہ یہ احساس رکھتا ہو کہ میں جو کر رہا ہوں وہ کاملا درست ہے ، تب انسان کے دل سے احساس زیاں ختم ہوجاتا ہے ۔

ہم نے بحثیت قوم اپنی قومی زبان کو ترک کیا اور ہمیں احساس زیاں تک نہیں ہوا کیونکہ ہمارے اندر یہ احساس ڈالا گیا کہ  اپنی قومی زبان کو ترک کیا جانا وقت کی ضروت ہے اور اسی میں مصلحت ہے اور اس فکر کو ہمارے نصاب میں شامل کردیا گیا ، اس ںظریہ کے مبلغین نے بہت سستے داموں یہ سودا کیا کیونکہ ایک طرف سے پورے کارواں کی متاع دی اور دوسری طرف سے فقط (سَر) کا لقب ملا اور سلارِ کارواں اتنے ناداں کہ وہ سَر کا لقب ملنے پر خوشیوں سے جھوم اُٹھے اور بعد میں اِنکے آنے والے پیروان تو بدون لقب بھی راضی رہے اور اس طرح ۔۔۔۔

وائے ناکامی! متاعِ کارواں جاتا رہا

کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا


 آج کارواں کاملا بدون متاع باقی رہ گیا اور اُن کی نظریں دوسروں کی متاع پہ ہیں کہ شاید دوسروں کی متاع ہمیں نجات دلائے اُدھر سے ستر سالہ قومی تجربہ بتاتا ہے کہ دوسروں کی متاع فقط اپنے صاحب کو فائدہ دیتی ہے ۔


تف مے پہ جو سنبھلے ہوئے انساں کو گرا لے
وہ مے تھی ترے خم میں جو گر توں کو سنبھالے

(حصہ دوم حاصل کرنے کےلئے اس لینک پر کلیک کریں


بنیان مرصوص اسلامی فکری مرکز