غزوہ بنی نضیر (تحلیلی نقطہ نگاہ سے)


غزوہ بنی نضیر (تحلیلی نقطہ نگاہ سے)


تحریر ؛ تابعدار حسین 

22 ربیع الاول 1442 ھ ق

بمطابق 8 نومبر  2020

 فارسی زبان کی معروف کهاوت هے که (گذشته چراغ راه آینده است ) یعنی  گزرا هوا زمانه آنے والے زمانے کی راه کے لیے چراغ هے ، اس سے مراد یه هے که جو ماضی کے اندر واقعات و حوادث رونما هوئے هیں وه انسان کے لیے آئینه هیں لهذا انسان کو جن تاریخی واقعات  سے عبرت لینی چاهیے اُن واقعات سے عبرت لے اور جن حوادث سے  درس ملتا هے وهاں سے درس لے ، اسی لیے تو تاریخ کو آئینه کے ساتھ تشبیه دی گئی هےاور کها گیا هے که تاریخ ، انسان کے لیےآئینه هے اور انسان اُس گذشته آئینه سے اپنے آئنده کو روشن کر سکتا هے ۔

گذشته قوموں کی تاریخ کے متعلق حضرت امام علی علیه السلام نے امام حسن علیه السلام کو فرمایا ؛ اے فرزند !  اگرچہ میں  نے اتنی عمر نہیں پائی جتنی اگلے لوگوں ( گذشته تاریخ کے لوگ ) کی ہوا کرتی تھیں .پھر بھی میں  نے ان کی کار گزاریوں کو دیکھا ,ان کے حالات و واقعات میں  غور کیا اور ان کے چھوڑے ہوئے نشانات میں  سیر و سیاحت کی ,یہاں تک کہ گویا میں بھی انہی میں ایک ہو چکا ہوں بلکہ ان سب کے حالات و معلومات جو مجھ تک پہنچ گئے ہیں ان کی وجہ سے ایسا ہے کہ گویا میں  ان کے اوّل سے لے کر آخر تک کے ساتھ زندگی گزاری ہے .چنانچہ میں  نے صاف کو گندلے اور نفع کو نقصان سے الگ کر کے پہچان لیا ہے ۔ (نهج البلاغه نامه 31 )

اور اسی طرح ایک اور مقام پر فرماتے هیں ؛ تمہارے لیے گذ شتہ دوروں (کے ہر دور )میں عبرتیں (ہی عبرتیں ) ہیں (ذرا سوچو کہ) کہاں ہیں عمالقہ اور ان کے بیٹے،اور کہاں ہیں فرعون اور ان کی اولادیں ؟

( نهج البلاغه خطبه 180)

لهذا اس حدیث نورانی امیرالمومنینؑ کی روشنی میں اگر انسان تاریخی واقعات کے اندر غور و فکر کرےتو ان کے اندر چُھپے هوے گوهر تک پهنچ جاےگا که بلآخر قوموں کی کامیابی کا راز کس چیز میں هے؟ اور اسی طرح قوموں کی نابودی کی وجوهات کیا هیں ؟ اور اس سے بڑھ کرهم و هماری قوم و ملت جس راسته پر چل رهی هے اس راسته کا انجام کهاں پر هے ؟ آیا یه راسته سعادت کی طرف جاتا هے یا هلاکت کی طرف ؟ آیا جس راسته پر هم  چل پڑے هیں تاریخ میں کون سی قوم و ملت اس راسته پر چلی اور انکا انجام کیا هوا ؟

ان تمام مسائل کا حل انسان کو گذشته تاریخی واقعات میں فکر کرنے سے ملے گا ، اس وجه سے قرآن کریم نے سابقه قوموں کے حالات ذکر کرنے کے بعد فرمایا که ان واقعات میں عاقلوں کے لیےنشانیاں هیں ، لهذا هم اِن تاریخی واقعات کو ایک داستان و قصه سمجھ کر مطالعه نه کریں بلکه ایک معیار و میزان کے طور پر مطالعه کریں تاکه هم تاریخی عبرتوں اور تاریخی  درسوں تک پهنچ سکیں اور پھر  اپنے اردگرد کے ماحول کی اصلاح کرسکیں ۔

اُنهی تاریخی واقعات میں سے ایک تاریخی واقعه غزوه بنی نضیر هے جو که 22 ربیع الاول 4 هجری قمری کو رونما هوا هے اور تاریخ اسلام کے مهم و رقم ساز واقعات میں سے ایک هے اور اس تاریخ ساز واقع کو اب یعنی 22 ربیع الاول 1442 هجری قمری کو 1438 سال کامل هوجائیں گے، لیکن کیا هم نے کبھی اس واقع کے مختلف پهلوں میں غور و فکر کیا هے ؟ کیا اس سے هم نے کبھی عبرتیں اور درس لیے هیں ؟ کیا هم نے اپنے موجوده حالات کے حل کے لیے کبھی اس واقع یا اس جیسے باقی واقعات کا مطالعه کیا هے؟ اس کا جواب همیں اپنے ضمیر کے ساتھ هم کلام هونے سے مل جائے گا ۔ 

 هم یهاں پر غزوه بنی نضیر کو تفصیل کے ساتھ  ذکر نهیں کریں گےبلکه فقط اشاره کریں گے اور اُن کے مختلف پهلوں میں سے ایک پهلو کو جو که همارے مد نظر هے اس کو بیان کریں گے ۔

رسول الله (ص) نے مکه سے مدینه هجرت کرنے کے بعد مدینه کے اندر اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی اور اس نوزاد حکومت کی رهبری خود فرمائی ، ایک مهم سیاسی عمل جو آپ (ص) نے انجام دیا ، مدینه کے اطراف میں آباد یهودیوں کے ساتھ صلح کے عهد و پیمان باندھےاور دونوں طرف سے موافقت بھی هوئی ، لیکن یه پیمان زیاده دوام نهیں لا سکے اور بالآخر یهودیوں کے قبیله بنی نضیر نے پیمان شکنی کی اور رسول الله (ص) کو ٹارگٹ (قتل) کرنے کی سازش بنائی که جس سے رسول الله  (ص) وحی کے ذریعے آگاه هو گئےاور پھر اس طرح یهود کے ساتھ دوسری جنگ کا آغاز هوا ، رسول خدا (ص) نے یهودیوں کو حکم دیا که وه مدینه کو چھوڑ کر چلے جائیں پهلے تو انهوں نے قبول کیا لیکن بعد میں عبدالله ابن ابی جو که منافق تھے اُن کے کهنے پر یهود نے مقاومت دکھائی ، تو اُس وقت رسول الله (ص) نے  قلعه کا محاصره کرنے کا حکم دیا اور بلآخر پندره دن میں یهودی تسلیم هوگئے اور پھر مدینه کو ترک کیا  ، یه هے اس غزوه کا تاریخی خلاصه ، تفصیل  تاریخی کتابوں میں ذکر هے ۔

اب هم اِس کے اُس پهلو کی طرف اشاره کرتے هیں جو که همارے مد نظر هےاور وه داستان یه هے که اِس واقعه کے وقت همارے سامنے تین طبقات هیں ۔

1 ۔ اُمت اسلامی      2 ۔ رهبر اسلامی     3 ۔ دشمن خدا (یهود)

دشمن خدا نے نبی خدا کو قتل کرنے کی سازش کی اور خدا کے رسول  دشمن کی اس سازش سے آگاه هوجاتے هیں اب اس کے بعد اُمت اسلامی کا امتحان کا وقت شروع هوتا هے اور اب اُمت اسلامی کے سامنے فقط دو راسته هیں ، ایک تو یه که میدان میں آجائیں اور دشمن کے خلاف اُٹھ کھڑے هوں اور دوسرا یه که میدان کو خالی چھوڑ دیں یعنی اپنے وقت کے رهبر کے دفاع کے لیے نه نکلیں ، اور پھر اِن هر دو راستوں کا نتیجه مختلف نکلے گا ، ایسا ںهیں هے که هر دو صورتوں میں نتیجه ایک هو ، بس اُس وقت اُمت اسلامی نے پهلے راسته کا انتخاب کیا اور مقاومت دکھائی اور کامیاب هوگئے اور اپنے دشمن کو بُری طرح شکست سے دی البته اُس وقت مسلمان اقلیت میں تھے لیکن اُنهوں نے اپنے رهبر سے یه نهیں کها که هم تو بهت کم هیں اور پوری دنیا هماری دشمن هے بلکه انهوں نے اپنے الهیٰ رهبر کی آواز پر لبیک کها ، لیکن اگر یهی اُمت دوسرے راسته کا انتخاب کرتی تو پھر نتیجه کچھ اور هوتا پھر نه فقط  پیامبر (ص) کی جان خطره میں هوتی بلکه اُمت اسلامی بھی جنگ سے بڑے خطره میں گہیر جاتی ، جیسے سابقه اُمتوں میں هوا که اپنے نبی کا ساتھ نهیں دیا پھر کسی طاغوت کے چنگل میں پھنس گئے که اس طرح کی متعدد مثالیں بنی اسرائیل میں موجود هیں ۔

بس فرق نهیں پڑتا که دشمن ، رسول الله (ص) کے بدن و جسم پر حمله کرنے کی سازش کرے یا آپ کی پاکیزه و مطاهر شخصیت پر حمله آور هو ، جب رسول الله (ص) کی جان کو خطره تھا تو اُس وقت اُمت اسلامی نے آپ (ص) کا دفاع کیا اور کیا خوب دفاع کیا ؟ که آج بھی تاریخ اُن جانثاروں پر ٖفخر کرتی هے ، چاهے وه شب هجرت هو یا جنگ اُحد هو یا طائف کے پتھر هوں یا بنی نضیر کے یهودیوں کی ناکام سازش هو ، لهذا اُمت اسلامی کی کامیابی کا راز یه تھا که دفاع دین و دفاع رسول الله (ص) کے لیے همیشه آماده تھے اور اس وجه سے پوری دنیا کو تسخیر کیا اور اُمت اسلامی ایک شکست ناپذیر طاقت هوکر دنیا میں اُبھری لیکن آج اُسی اُمت اسلامی کو کیا هوا که هر آئے دن دشمن ، رسول الله (ص) کی شخصیت پر حمله آور هوتا هے اور آپ کی شان میں توهین کرتا هے اور مسلمان اتنے بےبس ہوجاتے ہیں که کچھ کر بھی نهیں سکتے اور مسلمانوں کی آواز تک یهود و نصاریٰ کے سامنے نهیں نکلتی ، بالآخر مشکل کهاں پر هے؟ کل وه کم هوکر بھی دشمن پر بھاری تھے اور هم آج زیاده هوکر بھی دشمن کے سامنے رسوا هیں ، انهوں نے کم هوکر بھی بڑی بڑی طاقتوں کو شکست دی اور هم زیاده هوکر بھی اپنا دفاع تک نهیں کرسکتے اور دنیا کے هر کونے میں مسلمان هی فقط مظلوم هے ، آخر کیوں ؟

کیونکہ وه دین اسلام کے دفاع کے لیے اور پیامبر اسلام کے دفاع کے لیے همیشه آماده تھے، وه اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار تھے لیکن همارا دین فقط زبان کا رهے گیا هے، وه کم تھےلیکن متحد تھے ، هم زیاده هونے کے باوجود فرقوں میں بکھر گئے هیں ، وه اپنا مال لے کر گلیوں میں محتاجوں کی تلاش میں گھومتے تھے اور هماری نظر دوسروں کے مال پر هوتی هے ۔

یه هے هم میں اور اُن میں فرق ، لذا اگر هم چاهتےهیں که آج کےغزوه بنی نضیر میں کامیاب هوں تو کل کے غزوه بنی نضیر کو عملی کرنا هوگا ، اُس وقت کسی پیرس کے شیطان کی همت نهیں هوگی که همارے پیارے نبی حضرت محمد صلی الله علیه و آله وسلم کی شخصیت کشی یا توهین کا سوچے ، سوچنے سے هی دشمن گھبرائے گا ، عمل کرنا تو دور کی بات هے ، فقط همیں تاریخی اصولوں اور اپنے اسلاف کی سیرت کی طرف پلٹنا هوگا ، پھر دیکھیں کامیابی کیسے اُمت اسلامی کے قدم چومتی هے ۔

والسلام  

 

الھم صل علیٰ محمد و آل محمد

 

 

 

 #غزوہ بنی نضیر (تحلیلی نقطہ نگاہ سے)

 

 

 

 

   

نظرات 0 + ارسال نظر
برای نمایش آواتار خود در این وبلاگ در سایت Gravatar.com ثبت نام کنید. (راهنما)
ایمیل شما بعد از ثبت نمایش داده نخواهد شد