تحریر ؛ تابعدار حسین هانی
چکیده (خلاصہ)
اس مقالہ میں سب سے پہلے ملکی موجودہ حالات کے تناظر میں مہم مسائل (سیاسی ناپائیداری و تفرقہ ) کو بیان کیاگیا ہے اسی مطلب کے ضمن میں سیاسی ناپائیداری کے مفردات کو علمی بنیادوں پر بررسی کیا گیا جیسے سیاست و ناپائیداری کا لغوی و اصطلاحی معنی ، سیاست کی اقسام وغیرہ اور اسکے بعد سیاسی ناپائیداری و تفرقہ کی وجہ سے ملک میں اُٹھنے والے بحران ، اور اسی طرح پاکستان میں موجود مختلف دو سیاسی روشیں اور اُنکی بررسی اور آخر میں ایک راہ حل بیان کیا گیا هے اس معنی میں کہ تشیع کو موجودہ حالات میں کس سیاسی روش سے استفادہ کرنا چاہیے ۔
موجودہ ملکی حالات ، سیاسی ناپائیداری ، تفرقہ ، تشیع ، بحران ، خواص کی ذمہ داری
سیاسی مسائل کا تجزیہ وتحلیل اور اُن کو بیان کرنا کافی دشوار کام ہے چونکہ بیشتر لکھاری سیاسی مسائل کو بیان کرنے میں لغزش کا شکار ہو جاتے ہیں ، درست نتیجہ نکالنا اور حقائق تک پہنچنا انکے لیے کافی دشوار ہو تا ہے ، اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ غالبا ہر تجزیہ نگار نے پہلے سے اپنا ایک سیاسی نظریہ تشکیل دیا ہوتا ہے ، پھر اس تشکیل شدہ نظریہ کی بنیاد پر مختلف موضوعات کو زیر بحث لاتے ہیں جیسے اگر موجودہ صورتحال میں تمام سکالر ، کالم نگار و تجزیہ نگار کے بیانات پر توجہ کیجاے تو روزِ روشن کی طرح نظر آئے گا کہ بیشتر لکھاری یا تو وہ ہیں جو کسی گروہ و جماعت کی تائید کر رہے ہیں یا پھر وہ ہیں جو کسی گروہ و جماعت کی مذمت کررہے ہیں یعنی غالبا پہلے سے موجود نظریہ کی بنیاد پر موجودہ حالات کا تجزیہ کرتے ہیں اور یہی وہ نقطہ ہے جس کی وجہ سے تجزیہ نگار و تحلیل گر انحراف کا شکار ہو جاتا ہے اور اُس نتیجہ تک پہنچ جاتا ہے جو پہلے سے مشخص ہوتا ہے جیسےعلم کلام میں متکلم جب بحث کا آغاز کرتا ہے تو اس کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ حق تک پہنچے بلکہ اس کا ہم و غم یہ ہوتا ہے کہ ہر روش سے استفادہ کرے تاکہ اس نے جو عقیدہ اپنایا ہے اسی کو حق ثابت کرسکے اور اسکا دفاع کرے اور اسی طرح چونکہ سیاسی مسائل میں بھی ایک نظریہ و عقیدہ ہوتا ہے لہذا اس میں بھی یہ مشکل پیش آتی ہے ، اسی لیے جب ایک محقق کی خصوصیات بیان کی جاتی ہیں تو سب سے اہم خصوصیت (صداقت) کو بیان کیا جاتا ہے کہ ایک محقق کو صادق ہونا چاہیے یعنی جب بھی کسی موضوع کے متعلق تحقیق کرنا چاہے تو سب سے پہلے تعصب کی عینک کو اتارے اور ایک منصف انسان و حق کے متلاشی کے طور پر اس میدان میں وارد ہو ، تاکہ حق و حقیقت تک رسائی حاصل کرے ، لہذا اسی غرض کی خاطر و پاکستان کے موجودہ حالات کو درست سمجھنے ، انکے عوامل اور راہ حل تک پہنچنے کے لیے ہم نے اس مقالہ میں اپنی بھرپور کوشش کی ہے کہ پاکستان کے موجودہ مسائل کو بغیر کسی پِیش فرض کے تجزیہ و تحلیل کریں اور درست نتائیج تک رسائی حاصل کریں تاکہ ہمیں اس بحث سے ثمرہ علمی کے ساتھ ساتھ ثمرہ عملی بھی حاصل ہو ۔
لازم ہے کہ سب سے پہلے مختصر و مہم موجودہ ملکی حالات کو بیان کریں ، موجودہ ملکی حالات میں سب سے مہم موضوع سیاسی ناپائیداری ہے باقی تمام موجودہ مسائل سیاسی ناپائیداری کے بطن سے پیدا ہوئے ہیں اور یہ تمام مسائل ایک لحاظ سے فرعی مسائل ہیں درحالیکہ یہی فرعی مسائل اپنی جگہ پر بہت مہم و اہم ہیں اور انکو آگے اسی مقالہ میں زیر بحث لائیں گے ، لیکن یہاں پر ہم سب سے پہلے پاکستان کی موجودہ سیاسی ناپائیداری کو زیر بحث لاتےہیں ۔
پاکستان سیاسی طور پر کاملا بحرانی حالت میں ہے ، کئی دہائیوں سے حرج و مرج کا شکار ہے اورکسی پالیسی و منصوبہ بندی کے بغیر چل رہا ہے اس مسئلہ کی توضیح کے لیے ہمیں بطور مقدمہ سیاسی ناپائیداری کے مفردات کی توضیح دینی ہوگئی تاکہ مسئلہ کی جڑ تک پہنچ سکیں ، مثلا سیاست سے کیا ہے ؟ کلمہ سیاست کتنے معنی میں استعمال ہوا ہے؟ لغت میں سیاست سے کیا مراد ہے؟ سیاست کا اصطلاحی معنی کیا ہے ؟ ناپائیداری کا لغوی و اصطلاحی معنی کیا ہے ؟ اور اس جیسے دیگر بنیادی سوالات اور انکے جوابات
آج پوری دنیا میں سیاست کی اصطلاح مختلف معنوں میں استعمال هوتی هے اور یه تمام معانی عامیانه و تحریف شده هیں اُن معانی میں سے ایک معنی جو پوری دنیا میں معروف و بدنام ہے، وہ معنی یہ ہے کہ بیشتر لوگ سیاست کو شیطنت کے معنی میں لیتے ہیں یعنی سیاست کو شیطنت کے مترادف سمجھتے ہیں ، اسی لیے عام لوگ عموما جب ایک دوسرے کو سرزنش کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ مَیں آپ کی سیاست سے واقف ہوں ، آپ کی سیاست میں آنے والا نہیں ہوں میرے ساتھ سیاست نہ کرو ، دوسرے لفظوں میں یعنی شیطنت نہ کرو ، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عام لوگ سیاست کے نام پر جو دیکھ رہے ہیں وہ یہی شیطانی سیاست ہے ، آج پوری دنیا میں اگر نگاہ کریں تو اکثر ممالک اپنی عوام کے ساتھ یہی سیاست کر رہے ہیں چاہے وہ عربی ممالک ہیں یا غربی سب میں یہی شیطانی سیاست ہورہی ہے ، لہذا جب بھی سیاست کا نام آتا ہے تو لوگوں کے ذہن میں یہی شیطانی سیاست آتی ہے اور عُرف میں اس کا تصور ہی قبیح ہے ، اسی طرح ہمارے پاکستانی معاشرہ میں اس معنی کے ساتھ ساتھ ایک اور معنی بھی ذہنوں میں خطور کرتا ہے مثلا جونهی لفظ سیاست آتا هے فورا ذهن میں الیکشن ، ووٹ مانگنا ، الیکشن لڑنا اور الیکشن جیتنے کی روشیں وغیره آتے هیں اور اسی وجه سے لوگ سمجھتے هیں که ایک سیاسی انسان وہ ہے ، جو الیکشن میں حصه لیتا هو ، الیکشن لڑتا هو ، ووٹ مانگتا هو ، جھوٹ بولتا هو ، عوام کو فریب دیتا هو ،کرپشن کرتا هو ، اُس کے بچه بیرون ممالک میں رهتے هوں ، لوگوں کو بے وقوف بنانا اُس کو آتا هو ، اپنے ذاتی مفادات کو اجتماعی مفادات پر ترجیح دیتا هو ،مجرموں کو جیل سے چھوڑاتا هو ، بے گناهوں کو سزاء موت کرواتا هو ، دین کی الف باء سے واقف نه هو ، دهشتگردوں کی امداد کرتا هو ، دوسرے ممالک سے قرضه لینے میں ماهر هو اور اس جیسے باقی سیکڑوں اوصاف کا حامل هو تو یه ایک حقیقی سیاستدان هے اور اس کو پاکستان کے اندر سیاسی اصطلاح میں ایک منجھا هوا سیاستدان کہتے هیں ، اگر هم اس مطلب کو ایک جمله میں قلم بند کرنا چاهیں تو کهه سکتے هیں که همارے معاشرے میں دو اصطلاحیں ( سیاست و الیکشن ) مترادف هیں ، درحالیکه علمی نقطه نگاه سے ( سیاست و الیکشن ) کاملا ایک دوسرے سے جدا اصطلاحیں هیں اور ایسا نهیں هے که هر الیکشن لڑنے والا سیاسی هو اور جو الیکشن نہیں لڑتا وه سیاسی نهیں هے اس مطلب کو مختصر وضاحت کی ضرورت هے ۔
1 ۔ سیاست لغت میں رعیت پر حکمرنی کرنا ، امور مملکت کو اداره کرنا ، حکومت کرنا ، ریاست کرنا
(معین،1353،ص1075)
2 ۔ امور مملکت کو اداره کرنا ، اندرونی و بیرونی امور پر نظارت کرنا ، رعیت داری ، خلق کی اصلاح
(عمید، 1381،ج1 ، ص 1256)
3 ۔ ریاست کرنا، حکمرانی ، مصلحت ، سزا دینا
(لسان العرب، واژه «سوس» ج۶، ص۱۰۸) ،(العین، واژه «سوس» ج۷، ص۳۳۶) ،(لغت نامه دهخدا) ، (مرآة العقول ج۳، ص۱۵۰)
سیاست کے اصطلاحی معانی بهت زیاده بیان هوئے هیں اور اهل نظر فرماتے هیں که ابھی تک اس کلمه کے 200 کےقریب معانی بیان هوے هیں لیکن هم یهاں پر چند مهم معنی کو بیان کریں گے ۔
1 ۔ کچھ مغربی دانشور سیاست کا معنی (قدرت و طاقت کا علم) بیان کرتے هیں اور ان کے نزدیک سیاست ایک علم ہے جو انسان کو بتاتا هے که کیسے طاقت و قدرت حاصل کرنی هے۔ (اصول علم سیاست، موریس دوورژه، ترجمه دکتر ابوالفضل قاضی، صص 18-17)
2 ۔ کچھ اور مغربی دانشور آئے اور انهوں نے پهلے نظریه کو معتدل کیا اور کها سیاست یعنی حکومت کرنے کا علم اور یه علم حکومت کی رفتار کو برسی کرتا هے ۔ (نظریههای دولت، اندرووینست، ترجمه حسین بشری، ص 20)
اسی طرح سیاست کی اور بھی بهت ساری تعریفیں کی گئی هیں لیکن هم اس مختصر سی تحریر میں نقل کرنے سے قاصر هیں ، اب هم یهاں پر ایک مهم نظر کو بیان کرتے هیں جو موجوده دور میں تمام مفکرین اسلام کے نزدیک قابل قبول هے اور وه هے
سیاست کا معنی امام خمینی (ره) کے نزدیک
اس سیاست کی توضیح امام راحل (ره) نےاُس وقت بیان کی که جب شاه کے ایک اعلٰی افسر نے امام خمینی (ره) سے کها که سیاست یعنی جھوٹ ، فریب ، دھوکه و مکاری هے آپ اس کو همارے لیے چھوڑ دیں تو امام خمینی (ره) نے فرمایا یه آپکی سیاست هے اور اس سیاست کا اسلام کے ساتھ کو تعلق نهیں هے یه سیاست شیطانی هے ۔ (امام خمینی، 1391، ج 13، ص 431)
امام خمینی (ره) فرماتے هیں ؛ فرض کریں ایک انسان آئے اور صیح سیاست ( مادی) کو اجراء کرئے ،اُس کی سیاست شیطانی نه هو اگر اُس کی سیاست صیح هو پھر بھی انسان کے ایک پهلوکو هدایت کرتی هے اور وه پهلو حیوانی هے جبکه انسان کا فقط مادی پهلو نهیں هے بلکه اس سے بڑا پهلو (معنوی پهلو) هے لهذا یه ایک ناقص سیاست هے ۔ (امام خمینی،1391،ج 13،ص 432)
سیاست یعنی معاشره و افراد کے (جس چیز میں مصالح هیں) اُن مصالح کی طرف راسته دکھانا اور هدایت کرنا ،اور یه روایات میں رسول الله (ص) کے لیے ثابت هے اور یه وهی چیز هے که جس کو قرآن کریم نے صراط مستقیم کها هے اور هم نماز میں کهتے هیں ( اھدنا الصراط المستقیم ) هم خدا وند کریم سے چاهتے هیں که ملت ، معاشره و افراد کو راه مستقیم پر چلاے که جو یهاں سے شروع هو اور آخرت پر ختم هو ۔۔۔ یه سیاست انبیاء و اولیاء کے ساتھ خاص هے ، انبیاء کی مسؤلیت سیاست هے ۔
امام خمینی،1391،ج 13،ص 432
حاصل مطلب
لہذا اگر ہم سیاست کی تمام تعاریف (سیاست شیطانی کے علاوہ) میں توجہ کریں تو ہمیں ایک چیز مشترک نظر آے گی اور وہ یہ ہے کہ معاشرہ و اجتماع کو چلانے کی روشیں اور طریقے ، دوسرے لفظوں میں سیاست یعنی کس طرح انسانیت کو سعادت کی طرف ہدایت کرنا ہے ؟ اور معاشرہ کو کس طرح مدیریت کرنا ہے ؟ تاکہ مصالح انسانی حاصل ہوں ، یہاں تک مادی و اسلامی سیاست مشترک ہے لیکن ان دو کے درمیان جدائی انسانی مصالح کی تشخیص کے وقت ہوتی ہے ، مادی سیاست کرنے والوں کے نزدیک انسان فقط حیوانی پہلو رکھتا ہے اوراس پہلو کی ضروریات کو پورا کیا جائے اور اس پہلو کی ضروریات کی تشخیص خود انسان دے سکتا ہے اور اس پہلو میں دین کی کوئی دخالت نہیں ہے ، جبکہ اسلامی سیاست میں انسان مادی پہلو کے علاوہ معنوی پہلو بھی رکھتا ہے اور انسان کا اصلی پہلو ، یہی معنوی پہلو ہے ، انسان کا مادی پہلو معنوی پہلو کی تکمیل کرتا ہے اور دین اسلام انسان کے دونوں پہلووں کو کمال تک پہنچانے کے لیے ہے ، انسان کی سعادتِ دنیوی و آخروی تک پہنچنے کےلیے جس راہ و روش کی ضرورت ہے اسکو دین اسلام نے بیان کیا ہے اور تمام انبیاء کرام اسی مقصد کے لیے مبعوث ہوئے ہیں اور یہی اسلامی و الہی سیاست ہے ، پس اس تعریف کی روشنی میں سیاست انبیاء کی مسؤلیت هے اور هر نبیؑ نے اپنی اُمت کے اندر اس فریضه کو ادا کیا ہے انبیاء کے بعد ائمه علیه السلام نے اُمت کی رهبری سنبھالی اور اُمت کی هدایت کے لیے تمام مشکلات کو برداشت کیا ، البته یاد رهے که بیشتر انبیاء و أئمهؑ کے پاس حکومت نهیں تھی لیکن پھر بھی اُمت کی صراط مسقیم کی طرف هدایت کی ہے دوسرے لفظوں میں الہی سیاست کو انجام دیا ہے ، لهذا سیاست فقط الیکشن لڑنے کا نام نهیں هے بلکه اُمت اسلامی کی رهبری کرنے کا نام هے ، اُمت کو صراط مستقیم کی طرف هدایت کرنے کا نام هے اور یهی کام امام خمینی (ره) نے انجام دیا ہے ، امام خمینی (ره) نے جب اُمت کی رهبری سنبھالی اُس وقت انقلاب نهیں آیا تھا بلکه انقلاب کے دور دور تک کوئی آثار نہیں تھے اور ایک ظالم و جابر شاه ملک پر حاکم تھا اس سختی کے دور میں امام خمینی (ره) نے سیاست کا آغاز کیا اور وه بھی اسلامی سیاست ، جو چوده صدیوں سے مهجور تھی ، امام راحل (ره) نے آکر اُس ائمهؑ کی سیاست کو زنده کیا اور تمام تر سختیوں کو برداشت کر کے عَلم ولایت کو دنیا کے تمام جابروں کے مد مقابل بلند کیا ، لہذا سیاست کا حقیقی معنی یهی هے اور اس کا انجام دینے والا علوی سیاستدان هے ، پس سیاستدان وه شخص هے جسکے ہاتھ میں معاشره کی نبض هو ، جو معاشره کو چلانے کی روشوں سے واقف هو ، جو اُمت کو صراط مستقیم کی طرف راهنمائی کر سکتا هو ، چونکه امام خمینی (ره) کے نزدیک سیاست یعنی صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرنا هے اور یه انبیاء و اولیاء علیه السلام کا فریضه هے ، اور یهی فریضه پرده غیبت میں علماء کرام کا هے کیونکه حدیث میں آیا هے۔ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِیَاء
(الکافی، شیخ کلینی، ج ۱، ص ۳۲ ؛ بصائر الدرجات، محمد بن حسن صفار، ص ۱۰ ؛ کنز العمال، متقی هندی، ج ۱۰، ص ۱۴۶؛ بحار الانوار، علامه مجلسی، ج ۲، ص ۹۲ ؛)
خلاصہ کلام ! سیاست کو الیکشن کا مترادف تصور کرنا ، بهت بڑی غلطی هے اور صیح معنی ، معاشره و افراد کی تدبیر ، معاشره کو چلانے کی روشیں اور طریقے ، جو انسان کو سعادت ابدی تک لے جائیں ، سیاست کهلاتی هے اور جو انسان اس راه و روش سے آگاه هو اُس کو سیاستدان کهتے هیں ، اور همارے پاس اِن روشوں و طُرق و راه کا بهترین منبع کتاب خدا و سیرت انبیاء و أئمهؑ هے اور جو عالم اس سیرت و طرز پر معاشره کی هدایت کرتا هے وه در حقیقت سیاست اسلامی انجام دے رها هے اگرچہ اسکا الیکشن کے ساتھ دور دور تک واسطہ نہ ہو اور یهی وراثت انبیاء هے ۔
لغت میں ناپائیداری ،بے ثباتی ( جس چیز میں ٹھراؤ نہ ہو) ، ہمیشہ درحال تغییر و تبدیل ، متذلل ، فانی کے معنی میں ہے
سیاسی ناپائیداری کا اصطلاحی معنی
اصطلاح میں سیاسی ناپائیداری سے مراد یہ ہے کہ کسی بھی ملک کی سیاست حرج و مرج کا شکار ہو ، ملک کسی مستقل پالیسی پر مدیریت نہ ہو رہا ہو بلکہ ملک کی تقدیر بیرونی دشمن و اندرونی خیانت کاروں کے ہاتھ میں ہو اور ملک کے اندر سیاسی حریفوں کے درمیان فقط اقتدار کی جنگ ہو اگرچہ اس اقتدار کی جنگ کے نتیجہ میں ملک تباہ ہی کیوں نہ ہو جاے ، اب ان مفردات کی مفصل توضیح کے بعد آتے ہیں پاکستانی موجودہ ناپائیدار سیاست کی طرف ، ہم نے شروع میں پاکستان کے موجودہ تمام مسائل کی جڑ سیاسی ناپائیداری کو قرار دیا ہے اول تو معنی کےلحاظ سے پاکستان میں موجودہ سیاست اسلامی تو اصلا ، مادی سیاست بھی نہیں ہے کیونکہ ہر باضمیرانسان جانتا ہے کہ پاکستان میں موجودہ سیاست کی بنیاد جھوٹ،فریب ،لوگوں کی بے شعوری سے فائدہ اُٹھانا ،شخصی مفادات کو اجتماعی مفادات پر ترجیح دینا، ظلم و فساد ،بے انصافی وغیرہ پرہےاور تمام موجودہ سیاسی پارٹیوں کا ہم و غم اقتدار تک پہنچنا ہے چاہے وہ کسی طریقے سے بھی ہو ، ظلم سے ہو یا پراپگنڈہ کے زریعے سے ، وہ دین کے زریعے سے ہو یا بے دینی کے زریعےسے ، وہ ملت و قوم کے درمیان تفرقہ سے حاصل ہو یا خیانت کے زریعے سے ، اور اگر اسی دوران کوئی پاکستان کے ساتھ مخلص سیاسی گروہ یا جماعت ہے بھی صیح تو اُن کے ہاتھ میں نہ تو قدرت ہے اور نہ ہی اختیار اور نہ ہی اُن کا وجود موجودہ صورتحال پر تاثیرگزار ہے ۔
سیاسی ناپائیداری کے بطن سے نکلنے والا ایک مہم مسئلہ قوم و ملت کے درمیان اختلاف و تفرقہ ہے ،اس وقت پاکستان تفرقہ کی آگ میں بُری طرح سے جل رہا ہے ، قوم کے درمیان تفرقہ و اختلاف ایک دہشتگردی کی شکل اختیار کرچکا ہے ، چاہے وہ مذاہب و مسالک کے درمیان ہے یا سیاسی گروہوں کے درمیان، ایک مذہب کا فرد دوسرے مذہب کے فرد کو قبول نہیں کرتا اسی طرح ایک سیاسی جماعت کا فرد دوسری سیاسی جماعت کے فرد کو قبول نہیں کرتا ، اور یہ کام باقاعدہ ایک پالیسی کے تحت دشمن عناصر نے شروع کیا اور اپنے مقصد میں کامیابی کےلیے بعض لالچی ،اقتدار کی ہوس رکھنے والے افراد اور قوم و ملت کے بزدل افراد کو استعمال کیا ہے اور اَسی (80) کی دہائی سے لیکر آج دن تک ملک تفرقہ کی آگ میں جل رہا ہے،موجودہ حالات میں یہ دو مسئلہ(سیاسی ناپائیداری و تفرقہ ) بہت اہمت کے حامل ہیں اور باقی تمام مسائل فرعی ہیں ، اگر ان دو مسائلوں پر توجہ دی جائے اور ان کا راہ حل تلاش کیا جائے تو باقی تمام مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے ، اب موجودہ حالات سے اُٹھنے والے بحران یا چیلنجز کو زیر بحث لاتے ہیں ۔
ہے (crisis)و انگلش زبان میں بحران کا مترادف (krisis)لاطینی زبان میں بحران کا مترادف
سادہ الفاظ میں بحران خطرناک وقت ، مشکل وقت یا پریشانی کے وقت کو کہتے ہیں ۔
بعضوں نے کہا ہے کہ بحران کی اصطلاح کو اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب کوئی معاشرہ تعادل ، نظم اور معمول کی حالت سے خارج ہو جائے اور حرج و مرج نظم کی جگہ لے لے، اس وقت معاشرہ میں بحرانی حالت حاکم ہوجاتی ہے ۔
1۔ تعلیمی بحران
جب بھی کسی ملک میں سیاسی استحکام کی جگہ سیاسی ناپائیداری لے لے اور قومی یکجہتی کی جگہ تفرقہ و اختلاف لےلے، تو چند وجوہات کی بنا پر اُس وقت سب سے پہلی چیز جو متاثر ہوتی ہے اور بحران کا شکار ہو جاتی ہے وہ اُس ملک کی تعلیم ہے ، کیونکہ کسی بھی قوم کو تعلیمی میدان میں پیشرفت کےلیے امن و سکون یا دوسرے الفاظ میں ذہنی آسودگی کی ضرورت ہے لیکن سیاسی ناپائیداری میں سب سے پہلی چیز جو قوم ہاتھ سے دے بیٹھتی ہے ذہنی آسودگی ہے ، دوسرا یہ کہ تفرقہ کی وجہ سے سب سے پہلے ملک جس چیز کو قربان کرتا ہے وہ علمی شخصیات ہیں اگر آج سروے کیا جاے تو معلوم ہوگا اَسی (80) کی دہائی سے لیکر آج دن تک سب سے زیادہ علمی شخصیات کو ٹارگٹ بنایا گیا ہے ، تیسرا یہ کہ سیاسی ناپائیداری کی وجہ سے تمام سیاسی جماعتوں کا تمرکز اقتدار کے حصول پر ہوتا ہے اور تعلیم وہ آخری چیز ہوتی ہے کہ جس کی طرف شاید کوئی توجہ دے ، چوتھا یہ کہ سیاسی ناپائیداری سے فائدہ اُٹھاتے ہوے نااہل طبقہ مہم پوسٹوں پر پہنچ جاتا ہے جس کی وجہ سے تعلیم کا معیار ملک میں منفی میں چلا جاتا ہے اور اس عمل سے پڑھے لکھے طبقہ کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور نا لائق طبقہ کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور یہیں سے فساد معاشرے میں جنم لیتا ہے اور پھر اس جیسے ہزاروں دیگر مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔
2 ۔معاشی بحران
ایک اور چیلنج جو سیاسی ناپائیداری کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے وہ معاشی بحران ہے ، چونکہ اقتدار کی رسہ کشی میں بہت سارے خیانت کاروں کو مال بٹورنے کا موقع ملتا ہے لہذا اس فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بڑی سطح پر کرپشن کا دروازہ کھول جاتا ہے کیونکہ اِن لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ قانون کی بالادستی نہیں ہے ، سیاسی طور پر ملک حرج و مرج کا شکار ہے اور فساد نے ہر جگہ کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے لہذا ہم جو بھی کرتے رہیں ہم سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے اور یہ لوگ کو خلائی مخلوق نہیں ہوتی بلکہ انہی مختلف جماعتوں کے افراد ہوتے ہیں جن کے درمیان اقتدار کی جنگ چل رہی ہوتی ہے یا قتدار کی رسہ کشی میں اپنے حریف کو باہر نکالنے کے لیے خود معاشی بحران کو کھڑا کرتے ہیں اور اس بحران سے فقط ریاست و عوام کو نقصان ہوتا ہے جیسا کہ ابھی پاکستان میں یہی سیاسی ہتھگنڈا چل رہا ہے ایک پارٹی جان بوجھ کر ایک بحران کھڑا کرتی ہے پھر اپنے حریف کو اُس مقصرٹھراتی ہے پھر دوسری پارٹی اس بحران سے نکلنے کے لیے آئی ، ایم ، ایف سے قرضہ لیتی ہے اور آئی ، ایم ، ایف اُس قرضہ کے بدلے میں ایسی شرائط لگاتی ہے جس سے ملک اُس بحران سے تو نہیں نکلتا بلکہ ایک اور بحران کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے ، پھر اُس بحران سے نکلنے کے لیے دوبارہ آئی ، ایم ، ایف کے پاس جانا پڑتا ہے اور اسی طرح ملک دن بدن معاشی بحران کی دلدل میں دھستا جاتا ہے اور خزانے خالی ہوجاتے ہیں ، ترقیاتی کاموں کی چھٹی ہو جاتی ہے ، بجلی ، پانی ، راستہ جیسی بنیادی ضروریات سے عوام محروم ہوجاتی ہے ۔
سیاسی ناپائیداری و تفرقہ سے پیدا ہونے والا ایک بحران ، ثقافتی و فرہنگی بحران ہے ، اوپر جتنے موارد بیان کیے ہیں درحقیقت ایسی صورت حال میں ایک نسل تربیت ہورہی ہوتی ہے مندرجہ بالا تمام امور سبب بنتے ہیں کہ ایسی نسل کو اپنے اندر جنم دیں جو اخلاقی طور پر تمام انسانی اقدار سے خالی و عاری ہو ، جسکی بنیاد جھوٹ ، فریب ، خیانت ، ہوس پرستی ،ظلم ، کم چوری وغیرہ پر ہو ، آپ تصور کریں جس ملک میں ایسی قوم پرورش پا رہی ہو تو ایسے معاشرہ کو آپ ثقافتی لحاظ سے کیا القاب دیں گے ، آیا ایسے معاشرے سے ترقی ، عزت ، غیرت ، امانت داری اور اسلامی اقدار کی توقع کی جاسکتی ہے ، آج اس سیاسی ناپائیداری کی وجہ سے ہوس پرست طبقہ اپنی ہوس پوری کرنے کے لیے ایسی قوم تربیت کررہے ہیں تاکہ اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب ہوں ۔
4 ۔ امنیت کا بحران
موجودہ ملکی حالات(سیاسی ناپائیداری و تفرقہ) میں سب سے خطرناک بحران یہ ہے کہ کسی ملک کی عوام اپنے گھر میں نا امن ہوجائے ، چونکہ سیاسی ناپائیداری و حرج ومرج درحقیقت اقتدار کی جنگ کا نتیجہ ہوتا ہے اور اقتدار کی جنگ میں ہوس اقتدار رکھنے والے اپنے مقصود تک پہنچنے کے لیے ہر حربہ کو استعمال کرتے ہیں تاکہ اپنے مقصد تک پہنچ جائیں ، چاہے اُن کو ملک میں مذہبی و سیاسی دہشتگردی ہی کیوں نہ پھیلانی پڑے جیسے اس ملک میں ایک اقتدار کی هوس میں مست نے اپنے اقتدار کی خاطر مجاہدین پالے پھر دوسرے هوس پرست نے اپنے اقدار کی خاطر اُنہی پالے ہوے مجاہدین کو اپنے راستہ سے ہٹایا اور اب پھر بعض اپنے اقتدار کی خاطر دوبارہ وہی حالت پیدا کررہے ہیں، تنہا ناامنی کا بحران کس بھی ملک کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی صورتحال میں تشیع کو (جوکہ اس وقت دنیا میں اسلام کی علمبردار قوم ہے اور تمام دشمنان اسلام کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ڈٹی ہے اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مبارزہ کی حالت میں ہے چاہے وہ ایران ہو یا عراق ، وہ یمن ہو یا سوریا ، لبنان ہو یا نیجیریا وغیرہ ) پاکستان کے اندر کونسی سیاسی روش سے استفادہ کرنا چاہیے جس سے پاکستان کو ان بحرانوں سے نجات دلاے اور دنیا کے اندر عزت و وقار کے ساتھ سربلند ہو۔
یہاں پر ہم سب سے پہلے اُن دو روشوں کو سادہ اور مختصر بیان کریں گےجس پر پاکستان میں اُمت اسلامی کے درمیان بهت گرم بحث چل رهی هے اس کے بعد یہ بیان کریں گےکہ موجودہ حالات میں اُن میں سے کونسی روش کارآمد ہے یا انکے علاوہ کوئی اور راستہ بھی مفید ثابت ہوسکتا ہے ۔
1 ۔ نظام کی تبدیلی
پاکستان کی موجودہ صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے اور ظہور کا زمینہ فراہم کرنے کے لیے اور انسانوں کی دنیاوی و اخروی سعادت کے لیے ، ہمارے پاس فقط ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم اس جمہوری نظام کو جڑ سے اُکھاڑ کر باہر پھینکے اور اس کی جگہ پر نظام الہی (امامت و ولایت) کو نافذ کریں ۔
پاکستان میں جو موجودہ مغربی جمہوری نظام ہے اس کے اندر رہ کر الیکشن میں حصہ لیں اور پارلیمان کے اندر خود کو پہنچائیں ، خود کو قوی کریں اور پھر اس طرح ملک میں موجودہ خرابیوں کی اصلاح کریں اسکے علاوہ ہمارے پاس کوئی اور چارہ نہیں ہے نظام کو تبدیل کرنا ہمارے بس کی بات نہیں ہے کیونکه پاکستان میں همارے اهل سنت بھائی اکثریت میں ہیں لہذا انقلاب لانا اور نظام کو تبدیل کرنا ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پهلا نظریہ ، قرآنی نظریہ ہے اور اس کے حصول کے لیے اقدام کرنا ہر مسلمان کا وظیفہ ہے اور اُمت اسلامی کی نجات فقط اسی نظریہ میں ہے درحقیقت یہ کسی کی شخصی نظر نہیں ہے بلکہ قرآن کریم نے اسی نظریہ کو بیان کیا ہے ، پاکستان تو کیا پوری دنیا کے مسائل اس راہ سےحل ہونے ہیں ، فقط ضروری ہے کہ وہ تمام علل و اسباب جو اس نظام کے نفاذ کے لے ضروری ہیں فراہم کیے جائیں ۔
1 ۔ اولا تو مغربی جمہوری نظام اسلامی نقطہ نگاہ سے ، اسلام کے اہداف میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے ۔
2 ۔ دوسرا یہ کہ اگر تشیع ، پاکستان کے اندر ولایت و امامت کو نافذ نہیں کرسکتا کیونکه تشیع پاکستان میں اکثریت نہیں رکھتے ، تو اس نظر کے صاحبان کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ پھر تو تشیع جمہوری نظام میں بدرجہ اولیٰ کامیاب نہیں ہوسکتے کیونکہ اسلامی نظام میں اکثریت معیار نہیں ہے جبکہ جمہوری نظام میں اکثریت معیار ہے۔
3۔ تیسرا یہ کہ پاکستان کا موجودہ سیاسی نظام اصلا جمہوری نہیں ہے کیونکہ اگر یہ جمہوری ہوتا تو یہ فقط چند خاندانوں کے درمیان محدود نہ رہتا ، مثال کے طور پر ہم فقط ایک جماعت کو دیکھ لیتے ہیں جیسے پی پی پی، اگر ہم توجہ کریں اس کا بانی ذوالفقار علی بھٹو ہے اس کی وفات کے بعد اس پارٹی کی زمام اس پارٹی کے سب سے با صلاحیت انسان کے ہاتھ میں آنی چاہیے تھی لیکن ہم دیکھتے ہیں کے بھٹو کی وفات کے بعد اس پارٹی میں بعض ایسے افراد موجود تھے جو بینظر بھٹو سے سیاست میں زیادہ صلاحیت رکھتے تھے لیکن جماعت کی چئیرمین بینظر بھٹو بنیں بغیر کسی معیار و ضابطہ کے ، اُس کے بعد اس سے زیادہ واضح مثال خود بینظیر کے بعد جماعت میں بلاول سے بڑی سیاسی شخصیات موجود تھیں اگر اُن کے ساتھ بلاول کا مقایسہ کیا جاے تو شاید بلاول وہ آخری فرد ہوگا جو جماعت کا چئیرمین منتخب ہونے کا اہل ہو لیکن بلاول کو چئیرمین بنایا گیا ، یعنی اس مسئلہ میں عوام کا کوئی رول نہیں ہے بلکہ یہ وہی بادشاہت ہے فقط نام بدلا گیا ہے ، زیادہ ہم اس مسئلہ کی تفصیل میں نہیں جاتے فقط یہی کہنا چاہیں گے کہ اس نظام کی حقیقت اِسی زمان قریب میں کھل کے سامنے آگئی ہے کہ کس طرح سے پارلیمان ملکی مسائل میں سنجیدہ ہے ، کس طرح عدالت اعظمی اور کس طرح جماعتیں ، جب ملک کے مہم مسائل ہی پاکستان کے قانون سے باہر انجام پائے(جیسے رات کو عدالتیں لگانا وغیرہ) تو اس نظام سے اور کس اچھائی کی اُمید ہے ؟
شاید راہ حل کہنا ٹھیک نہ ہو بلکہ اس کو پیشنھاد یا تجویز کہیں تو زیادہ بہتر ہے ، بہر حال ہم یہاں پر سابقہ تمام بحث کا لب و لباب بیان کرنا چاہیں گے، پاکستان کی موجودہ حالت میں تشیع کی سیاست کیا ہونی چاہیے؟؟
موجودہ ملکی صورتحال میں تشیع کی نمائندگی کرنے والی تمام شخصیات کو مندرجہ بالا دو سیاسی روشوں کو جمع کرنا چاہیے، اس طرح سے کہ : 1 ۔ جو شیعہ مذہبی جماعتیں الیکشن کو موجودہ صورتحال میں درست سمجھتے ہیں اُن کا اِس میدان میں دو ہونا اصلا بےمعنی ہے ( کیونکہ یہ کام نہ مشروع ہے اور نہ ہی مقبول ، مشروع اس لیے نہیں ہے چونکہ یہ باعث بنا ہے کہ قوم دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے اور اُمت کو تقسیم کرنا تفرقہ کا باعث بنتا ہے اور تفرقہ بدترین گناہ ہے اور مقبول اس لیے نہیں ہے کہ درست ہے عوام کسی ایک جماعت کو حمایت کرتی ہے لیکن دل سے اس عمل کو قبول نہیں کرتی ) لہذا اِن جماعتوں کو چاہیے کہ بیشک باقی مسائل میں جدا سے فعالیت کریں لیکن الیکشن کے مسئلہ میں ایک پلٹ فارم پر ہوں ، اگر ہوسکے تو ایک ایسا پلٹ فارم درست کریں جو فقط مختص ہو الیکشن کے ساتھ اور وہ اِن جماعتوں کا مشترکہ پلٹ فارم ہو اور قوم الیکشن کے وقت اپنے مذہب سے فقط ایک پلٹ فارم کو دیکھے جس میں تمام خواص ایک نظر آئیں ، اس طرح سے ملت تشیع کو موجودہ سیاسی میدان میں ایک رکھا جا سکتا ہے ، اگر یہ صورت بھی ناممکن ہو تو حد اقل الیکشن کے وقت آپس میں الحاق کریں بجائے یہ کہ کسی دوسری جماعت کے ساتھ الحاق کریں اور قوم کو دو حصوں میں تقسیم کریں ، یہ فقط اس لیے بیان کیا ہے کہ یہ میدان خالی نہ رہے وگرنہ یہ ہدف اصلی نہیں ہے بلکہ اصلی مقصد نظام الہی تک پہنچنا ہے ۔
2 ۔ انہی شیعہ جماعتوں کا ایک وظیفہ یہ بھی ہے کہ انکا حقیقی مقصد نظام امامت و ولایت ہونا چاہیے ، یعنی انکی سال بھر کی فعالیت کا رُخ امامت کی طرف ہو ، فعالیت کا محور و مرکز امامت ہو ، ایسا نہ ہو کہ آپس میں نظریاتی اختلاف باعث بنے، اور آپ قوم و ملت کے لیے جمہوریت پر دلیلیں لانے اور جمہوریت کو ثابت کرنے کی کوشش کریں اور جو الیکشن کو درست نہیں سمجھتے انکو اسلام سےباہر سمجھنے اور پھر اس پر قرآن و سنت سے دلیلیں لائیں بلکہ قوم کے لیے روشن کریں که ((( حق کا راستہ فقط امامت و ولایت ہے اور نظام ولایت کا نفاذ پاکستان تو کیا پوری دنیا میں ممکن ہے اور یہ خدا کا وعدہ ہے اور اسکو پورا ہونا ہے اور ایسا نہیں ہے کہ جب پوری دنیا پر نظام امامت و ولایت نافذ ہوگا تو تمام ادیان والے اپنا دین چھوڑ کر مسلمان ہوجائیں گے اور تمام مذاہب اسلامی اپنا مذہب چھوڑ کر شیعہ ہوجائیں بلکہ تشیع جو کہ اسلام کی حقیقی شکل ہے تمام ادیان و مذاہب پر غالب آجائے گی ، اسلام کا غلبہ ہوگا اور قرآن کریم نے اسی کو بیان کیا ہے اور درحقیقت یہی ظہور ہے ) )) ہم نے اب جس روش کا انتخاب کیا ہوا ہے یہ ہماری مجبوری ہے ہمیں تمام تر توانائیاں صرف کرنی چاہیے تاکہ بہت جلد مجبوری کی حالت سے نکل کر معمول کی حالت میں آکر فعالیت کریں ، اِس طرح قوم و ملت کو حقیقی مقصد کی طرف جہت بھی ملے گی اور قوم کے اندر اتحاد و وحدت بھی قائم ہوگی جو تمام کامیابیوں کا راز ہے ۔
3۔ ہماری ان جماعتوں کو چاہیے کہ اپنی فعالیت کو فقط الیکشن لڑنے کے ساتھ خاص نہ کریں بلکہ الیکشن ان کی فعالیت کا فقط ایک جزءہے جیسا کہ پہلے بیان ہوا سیاست معاشرہ چلانے کی روشیں کو کہتے ہیں اور یہ کام صرف الیکشن کے ساتھ خاص نہیں ہے ، بلکہ معاشرہ کے اندر شعور و بصیرت ، تعلیم وتربیت ،اقدار و اخلاق پید اکرنا بھی انکی ذمہ داری ہے ، لہذا اگر ان میدانوں میں خود کو مضبوط کریں تشیع کی سیاست خود بخود مضبوط ہوگی ۔
4 ۔ جن کے نزد الیکشن درست نہیں ہے وہ اپنی تمام تر توانائیاں نظام امامت و ولایت کی تفسیر و تبیین میں صرف کریں اور نظام کے تمام ابعاد ( سیاسی ، اقتصادی ، اجتماعی و ثقافتی وغیرہ) کو موجودہ زمانے کے مطابق تدوین کریں اور دنیا کے سامنے پیش کریں ، اور آپس میں نظریاتی اختلاف کو فقط نظریاتی اختلاف کی حد تک رکھیں ، اس اختلاف کو دشمنی میں تبدیل نہ ہونے دیں بلکہ عملی طور پر اتحاد و وحدت کا پرچار کریں ، اس مسئله کی وضاحت کےلیے چاهتا هو رهبر معظم کے وه بیانات بطور دلیل پیش کروں جو رهبر معظم نے 8 مئی 2019 کو طلاب کے ساتھ ملاقات میں بیان فرمائے ۔
رهبر معظم حفظه الله فرماتے هیں :
اہم نکتہ : اس بحث کا سب سے مہم نکتہ یہ نکلتا ہے کہ کسی بھی صورت میں اِن تمام گروہوں کے درمیان تداخل نہیں ہونا چاہیے بلکہ اگر کسی ایک شعبہ میں کسی ایک فرد ،گروہ یا جماعت نے فعالیت شروع کی ہے تو دوسرے کو خوشحال ہونا چاہیےاور اس کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے چونکہ اس میدان کی ذمہ داری و مسؤلیت آپ کے ایک بھائی نے لے لی ہے لہذا آپکو اب اس میدان سے آسودہ خاطر ہونا چاہیے اور آپ کو فقط اپنی فعالیت پر متمرکز ہونا چاہیے ۔
5۔ تمام گروہوں سے گزارش ہے کہ قوم و ملت کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دیں اور تعلیمی بحران سے ملت کو باہر نکالیں ، ملکی تعلیمی نظام کے سہارے پر ملت تشیع کو نہ چھوڑیں بلکہ ملت کے جوانوں کی تربیت کی خاطر خود سے معیاری تعلیم کا اہتمام کریں تاکہ ملت تشیع پاکستان علمی رشد کرے آج ملت تشیع پاکستان علمی لحاظ سے صفر پر ہے اس وقت اگر ہم یہ کہیں کے کلی طور پر پاکستان کے اندر جہالت کے لحاظ سے شیعہ قوم کا پہلی تین قوموں میں شمار ہے تو یہ مبالغہ نہیں ہوگا کیونکہ وہ لوگ جو معاشرے میں تبلیغی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں وہ اس چیز کو بہتر درک کرسکتے ہیں۔
6۔ اِسی طرح ایک اور چیز جس کی طرف ہماری بحثیت قوم توجہ ہونی چاہیے وہ اقتصاد ہے اس وقت ہم پاکستان میں بحثیت قوم اقتصادی لحاظ سے بہت کمزور ہیں لہذا ہمیں اقتصادی لحاظ سے خود کو بہت مضبوط کرنا ہوگا اور یہ قوم کے زعماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ قوم کو اس بحران سے نکالنے کے لیے چارہ جوئی کریں، لہذا اگر ملت تشیع کے اندر یہ مثلث درست کی گئی تو کوئی بھی پاکستان کے اندر حتٰی دنیا کے اندر ملت تشیع پاکستان کا مقابلہ نہیں کرسکتا ، اُس وقت نہ فقط ملت تشیع رفاہ و امن میں رہے گی بلکہ تمام اُمت اسلامی ، تشیع کی بدولت رفاہ و امن میں زندگی گزارے گی اور یہ مثلث اِن تین زاویوں پر مشتمیل ہے ۔
1 ۔ سیاسی امور میں تداخل و تفرقه کے بجائے اتحاد و وحدت 2 ۔ملت کی تعلیم وتربیت اسلامی 3 ۔ مضبوط اقتصاد
فہرستِ منابع
لغت معین ، لغت عمید ، لغت لسان العرب ، لغت العین ، لغت نامہ دہخدا ، لغت مرآۃ العقول
اصول علم سیاست ( موریس دوورژه، ترجمه دکتر ابوالفضل قاضی ) نظریههای دولت، اندرووینست، ترجمه حسین بشری
صحیفہ امام خمینی رہ ، الکافی، شیخ کلینی، بصائر الدرجات، محمد بن حسن صفار، کنز العمال، متقی هندی، بحار الانوار، علامه مجلسی)
الھم صل علی محمد وآل محمد
بنیان مرصوص اسلامی فکری مرکز