اللَّهُمَّ کُنْ لِوَلِیِّکَ الحُجَةِ بنِ الحَسَن
صَلَواتُکَ علَیهِ و عَلی آبائِهِ
فِی هَذِهِ السَّاعَةِ وَ فِی کُلِّ سَاعَةٍ
وَلِیّاً وَ حَافِظاً وَ قَائِداً وَ نَاصِراً
وَ دَلِیلًا وَ عَیْناً حَتَّى تُسْکِنَهُ أَرْضَکَ طَوْعاً
وَ تُمَتعَهُ فِیهَا طَوِیلا
(حصہ اول)
تحریر : تابعدار حسین
ایک چیز جس کا ہمیشہ افسوس رہا ہے اور اس کے بارے میں ہمیشہ ناقابل تلافی غفلت کا احساس رہاہے اور شاید ہر منصف و زندہ ضمیر انسان ، زندگی میں ضرور اس احساس زیاں کی طرف متوجہ ہوتا ہے کہ ہم نے بحثیت قوم باقی سرمایہ کی طرح اپنے گراںبھا سرمایہ قومی زبان کے ساتھ کتنا ظلم کیا ہے ، ممکن ہے بعضوں کو یہ احساس زیاں بھی نہ ہو ۔
وائے ناکامی! متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں پر قوم وملت کو کارواں کے ساتھ تشبیہ دی ہے ، ملت وقوم جو ایک کارواں کی مانند ہے اس کی متاع( سرمایہ) لوٹتا رہا لیکن اس قوم وملت نےنہ فقط اپنے سرمایہ کو نہیں بچایا بلکہ اُنکو احساس زیاں تک نہیں ہوا کہ ہمارا کچھ لُٹ رہا ، احساس زیاں اُس وقت ختم ہوتا ہے جب انسان اپنے کاموں سے راضی ہو اور وہ یہ احساس رکھتا ہو کہ میں جو کر رہا ہوں وہ کاملا درست ہے ، تب انسان کے دل سے احساس زیاں ختم ہوجاتا ہے ۔
ہم نے بحثیت قوم اپنی قومی زبان کو ترک کیا اور ہمیں احساس زیاں تک نہیں ہوا کیونکہ ہمارے اندر یہ احساس ڈالا گیا کہ اپنی قومی زبان کو ترک کیا جانا وقت کی ضروت ہے اور اسی میں مصلحت ہے اور اس فکر کو ہمارے نصاب میں شامل کردیا گیا ، اس ںظریہ کے مبلغین نے بہت سستے داموں یہ سودا کیا کیونکہ ایک طرف سے پورے کارواں کی متاع دی اور دوسری طرف سے فقط (سَر) کا لقب ملا اور سلارِ کارواں اتنے ناداں کہ وہ سَر کا لقب ملنے پر خوشیوں سے جھوم اُٹھے اور بعد میں اِنکے آنے والے پیروان تو بدون لقب بھی راضی رہے اور اس طرح ۔۔۔۔
وائے ناکامی! متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
آج کارواں کاملا بدون متاع باقی رہ گیا اور اُن کی نظریں دوسروں کی متاع پہ ہیں کہ شاید دوسروں کی متاع ہمیں نجات دلائے اُدھر سے ستر سالہ قومی تجربہ بتاتا ہے کہ دوسروں کی متاع فقط اپنے صاحب کو فائدہ دیتی ہے ۔
تف مے پہ جو سنبھلے ہوئے انساں کو گرا لےوہ مے تھی ترے خم میں جو گر توں کو سنبھالے(حصہ دوم حاصل کرنے کےلئے اس لینک پر کلیک کریںبنیان مرصوص اسلامی فکری مرکز
حکمت 72
وَ قَالَ ( علیه السلام ) : الدَّهْرُ یُخْلِقُ الْأَبْدَانَ وَ یُجَدِّدُ الْآمَالَ وَ یُقَرِّبُ الْمَنِیَّةَ وَ یُبَاعِدُ الْأُمْنِیَّةَ مَنْ ظَفِرَ بِهِ نَصِبَ وَ مَنْ فَاتَهُ تَعِبَ .
زمانہ جسموں کو کُهنہ و بوسیدہ اور آرزوؤں کو دور کرتا ہے ، جو زمانہ سے کچھ پا لیتا ہے ، وہ بھی رنج سہتا ہے اور جو کھو دیتا ہے وہ تو دکھ جھیلتا ہی ہے۔
بنیان مرصوص اسلامی فکری مرکز
حکمت 480
وَ قَالَ ( علیه السلام ) : إِذَا احْتَشَمَ الْمُؤْمِنُ أَخَاهُ فَقَدْ فَارَقَهُ.
قال الرضى حَشَمَهُ وَ اَحْشَمَهُ إ ذا اَغْضَبَهُ وَ قِیلَ: اَخْجَلَهُ وَ احْتَشَمَهُ طَلَبَ ذلِکَ لَهُ. وَ هُوَ مَظِنَّةُ مُفارَقَتِهِ
جب کوئی مومن اپنے کسی بھائی کا احتشام کرے تو یہ اُس سے جدائی کا سبب ہو گا۔ سید رضی کہتے ہیں کہ حشم و احتشام کے معنی ہیں غضبناک کرنا، اور ایک معنی ہیں شرمندہ کرنا۔ اور احتشام کے معنی ہیں "اس سے غصہ یا خجالت کا طالب ہونا اور ایسا کرنے سے جدائی کا امکان غالب ہوتا ہے۔
بنیان مرصوص اسلامی فکری مرکز
حکمت479
وَ قَالَ ( علیه السلام ) : شَرُّ الْإِخْوَانِ مَنْ تُکُلِّفَ لَهُ.
قال الرضی : لأن التکلیف مستلزم للمشقة و هو شر لازم عن الأخ المتکلف له فهو شر الإخوان۔
بدترین بھائی وہ ہے جس کے لیے زحمت اٹھانا پڑے۔
سید رضی کہتے ہیں کہ یہ اس لیے کہ مقدور سے زیادہ تکلیف، رنج و مشقت کا سبب ہوتی ہے اور جس بھائی کے لیے تکلف کیا جائے، اُس سے لازمی طور پر زحمت پہنچے گی۔ لہذا وہ بُرا بھائی ہوا۔
بنیان مرصوص اسلامی فکری مرکز
حکمت 478
وَ قَالَ ( علیه السلام ) : مَا أَخَذَ اللَّهُ عَلَی أَهْلِ الْجَهْلِ أَنْ یَتَعَلَّمُوا حَتَّی أَخَذَ عَلَی أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ یُعَلِّمُوا .
اللہ نے جاہلوں سے اس وقت تک سیکھنے کا عہد نہیں لیا جب تک جاننے والوں سے یہ عہد نہیں لیا کہ وہ سکھانے میں دریغ نہ کریں۔
حکمت 477
وَ قَالَ ( علیه السلام ) : أَشَدُّ الذُّنُوبِ مَا اسْتَخَفَّ بِهَا صَاحِبُهُ .
سب سے بھاری گناہ وہ ہے جسے مرتکب ہونے والا سُبک (ہلکا) سمجھے
حکمت 476
وَ قَالَ ( علیه السلام ) : وَ قَالَ ( علیه السلام ) لِزِیَادِ ابْنِ أَبِیهِ وَ قَدِ اسْتَخْلَفَهُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْعَبَّاسِ عَلَی فَارِسَ وَ أَعْمَالِهَا فِی کَلَامٍ طَوِیلٍ کَانَ بَیْنَهُمَا نَهَاهُ فِیهِ عَنْ تَقَدُّمِ الْخَرَاجِ : اسْتَعْمِلِ الْعَدْلَ وَ احْذَرِ الْعَسْفَ وَ الْحَیْفَ فَإِنَّ الْعَسْفَ یَعُودُ بِالْجَلَاءِ وَ الْحَیْفَ یَدْعُو إِلَی السَّیْفِ .
جب زیاد ابن ابیہ کو عبد اللہ ابن عباس کی قائم مقامی میں فارس اور اس کے ملحقہ علاقوں پر عامل مقرر کیا تو ایک باہمی گفتگو کے دوران میں کہ جس میں اسے پیشگی مالگزاری کے وصول کرنے سے روکنا چاہا یہ کہا:
عدل کی روش پر چلو۔ بے راہ روی اور ظلم سے کنارہ کشی کرو کیونکہ بے راہ روی کا نتیجہ یہ ہو گا کہ انہیں گھر بار چھوڑنا پڑے گا اور ظلم انہیں تلوار اٹھانے کی دعوت دے گا۔
بنیان مرصوص اسلامی مرکز
حکمت 475
وَ قَالَ ( علیه السلام ) : الْقَنَاعَةُ مَالٌ لَا یَنْفَدُ .
قال الرضی : و قد روی بعضهم هذا الکلام لرسول الله ( صلی الله علیه وآله ) .
قناعت ایسا سرمایہ ہے جو ختم ہونے میں نہیں آتا۔
سید رضی کہتے ہیں کہ بعض لوگوں نے اس کلام کو پیغمبر (ص) سے روایت کیا ہے۔
حکمت 474
وَ قَالَ ( علیه السلام ) : مَا الْمُجَاهِدُ الشَّهِیدُ فِی سَبِیلِ اللَّهِ بِأَعْظَمَ أَجْراً مِمَّنْ قَدَرَ فَعَفَّ لَکَادَ الْعَفِیفُ أَنْ یَکُونَ مَلَکاً مِنَ الْمَلَائِکَةِ .
وہ مجاہد جو خدا کی راہ میں شہید ہو، اُس شخص سے زیادہ اجر کا مستحق نہیں ہے جو قدرت و اختیار رکھتے ہوئے پاک دامن رہے۔ کیا بعید ہے کہ پاکدامن فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہو جائے۔