حکمت 72
وَ قَالَ ( علیه السلام ) : الدَّهْرُ یُخْلِقُ الْأَبْدَانَ وَ یُجَدِّدُ الْآمَالَ وَ یُقَرِّبُ الْمَنِیَّةَ وَ یُبَاعِدُ الْأُمْنِیَّةَ مَنْ ظَفِرَ بِهِ نَصِبَ وَ مَنْ فَاتَهُ تَعِبَ .
زمانہ جسموں کو کُهنہ و بوسیدہ اور آرزوؤں کو دور کرتا ہے ، جو زمانہ سے کچھ پا لیتا ہے ، وہ بھی رنج سہتا ہے اور جو کھو دیتا ہے وہ تو دکھ جھیلتا ہی ہے۔
بنیان مرصوص اسلامی فکری مرکز
حکمت 480
وَ قَالَ ( علیه السلام ) : إِذَا احْتَشَمَ الْمُؤْمِنُ أَخَاهُ فَقَدْ فَارَقَهُ.
قال الرضى حَشَمَهُ وَ اَحْشَمَهُ إ ذا اَغْضَبَهُ وَ قِیلَ: اَخْجَلَهُ وَ احْتَشَمَهُ طَلَبَ ذلِکَ لَهُ. وَ هُوَ مَظِنَّةُ مُفارَقَتِهِ
جب کوئی مومن اپنے کسی بھائی کا احتشام کرے تو یہ اُس سے جدائی کا سبب ہو گا۔ سید رضی کہتے ہیں کہ حشم و احتشام کے معنی ہیں غضبناک کرنا، اور ایک معنی ہیں شرمندہ کرنا۔ اور احتشام کے معنی ہیں "اس سے غصہ یا خجالت کا طالب ہونا اور ایسا کرنے سے جدائی کا امکان غالب ہوتا ہے۔
بنیان مرصوص اسلامی فکری مرکز
حکمت479
وَ قَالَ ( علیه السلام ) : شَرُّ الْإِخْوَانِ مَنْ تُکُلِّفَ لَهُ.
قال الرضی : لأن التکلیف مستلزم للمشقة و هو شر لازم عن الأخ المتکلف له فهو شر الإخوان۔
بدترین بھائی وہ ہے جس کے لیے زحمت اٹھانا پڑے۔
سید رضی کہتے ہیں کہ یہ اس لیے کہ مقدور سے زیادہ تکلیف، رنج و مشقت کا سبب ہوتی ہے اور جس بھائی کے لیے تکلف کیا جائے، اُس سے لازمی طور پر زحمت پہنچے گی۔ لہذا وہ بُرا بھائی ہوا۔
بنیان مرصوص اسلامی فکری مرکز
حکمت 478
وَ قَالَ ( علیه السلام ) : مَا أَخَذَ اللَّهُ عَلَی أَهْلِ الْجَهْلِ أَنْ یَتَعَلَّمُوا حَتَّی أَخَذَ عَلَی أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ یُعَلِّمُوا .
اللہ نے جاہلوں سے اس وقت تک سیکھنے کا عہد نہیں لیا جب تک جاننے والوں سے یہ عہد نہیں لیا کہ وہ سکھانے میں دریغ نہ کریں۔
حکمت 477
وَ قَالَ ( علیه السلام ) : أَشَدُّ الذُّنُوبِ مَا اسْتَخَفَّ بِهَا صَاحِبُهُ .
سب سے بھاری گناہ وہ ہے جسے مرتکب ہونے والا سُبک (ہلکا) سمجھے
حکمت 476
وَ قَالَ ( علیه السلام ) : وَ قَالَ ( علیه السلام ) لِزِیَادِ ابْنِ أَبِیهِ وَ قَدِ اسْتَخْلَفَهُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْعَبَّاسِ عَلَی فَارِسَ وَ أَعْمَالِهَا فِی کَلَامٍ طَوِیلٍ کَانَ بَیْنَهُمَا نَهَاهُ فِیهِ عَنْ تَقَدُّمِ الْخَرَاجِ : اسْتَعْمِلِ الْعَدْلَ وَ احْذَرِ الْعَسْفَ وَ الْحَیْفَ فَإِنَّ الْعَسْفَ یَعُودُ بِالْجَلَاءِ وَ الْحَیْفَ یَدْعُو إِلَی السَّیْفِ .
جب زیاد ابن ابیہ کو عبد اللہ ابن عباس کی قائم مقامی میں فارس اور اس کے ملحقہ علاقوں پر عامل مقرر کیا تو ایک باہمی گفتگو کے دوران میں کہ جس میں اسے پیشگی مالگزاری کے وصول کرنے سے روکنا چاہا یہ کہا:
عدل کی روش پر چلو۔ بے راہ روی اور ظلم سے کنارہ کشی کرو کیونکہ بے راہ روی کا نتیجہ یہ ہو گا کہ انہیں گھر بار چھوڑنا پڑے گا اور ظلم انہیں تلوار اٹھانے کی دعوت دے گا۔
بنیان مرصوص اسلامی مرکز
حکمت 475
وَ قَالَ ( علیه السلام ) : الْقَنَاعَةُ مَالٌ لَا یَنْفَدُ .
قال الرضی : و قد روی بعضهم هذا الکلام لرسول الله ( صلی الله علیه وآله ) .
قناعت ایسا سرمایہ ہے جو ختم ہونے میں نہیں آتا۔
سید رضی کہتے ہیں کہ بعض لوگوں نے اس کلام کو پیغمبر (ص) سے روایت کیا ہے۔
حکمت 474
وَ قَالَ ( علیه السلام ) : مَا الْمُجَاهِدُ الشَّهِیدُ فِی سَبِیلِ اللَّهِ بِأَعْظَمَ أَجْراً مِمَّنْ قَدَرَ فَعَفَّ لَکَادَ الْعَفِیفُ أَنْ یَکُونَ مَلَکاً مِنَ الْمَلَائِکَةِ .
وہ مجاہد جو خدا کی راہ میں شہید ہو، اُس شخص سے زیادہ اجر کا مستحق نہیں ہے جو قدرت و اختیار رکھتے ہوئے پاک دامن رہے۔ کیا بعید ہے کہ پاکدامن فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہو جائے۔
حکمت 473
وَ قَالَ ( علیه السلام ) : وَ قِیلَ لَهُ ( علیه السلام ) لَوْ غَیَّرْتَ شَیْبَکَ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ
فَقَالَ ( علیه السلام ) : الْخِضَابُ زِینَةٌ وَ نَحْنُ قَوْمٌ فِی مُصِیبَةٍ یُرِیدُ وَفَاةَ رَسُولِ اللَّهِ ( صلی الله علیه وآله ) .
حضرتؑ سےکہا گیا کہ اگر آپ سفید بالوں کو (خضاب سے) بدل دیتے تو بہتر ہوتا۔ اس پر حضرتؑ نے فرمایا کہ خضاب زینت ہے اور ہم لوگ سوگوار ہیں۔ سید رضی کہتے ہیں کہ حضرت نے اس سے وفاتِ پیغمبر (ص) مراد لی ہے۔
حکمت 472
وَ قَالَ ( علیه السلام ) فِی دُعَاءٍ اسْتَسْقَی بِهِ : اللَّهُمَّ اسْقِنَا ذُلُلَ السَّحَابِ دُونَ صِعَابِهَا .
قال الرضی : و هذا من الکلام العجیب الفصاحة و ذلک أنه ( علیه السلام ) شبه السحاب ذوات الرعود و البوارق و الریاح و الصواعق بالإبل الصعاب التی تقمص برحالها و تقص برکبانها و شبه السحاب خالیة من تلک الروائع بالإبل الذلل التی تحتلب طیعة و تقتعد مسمحة .
طلب باراں کی ایک دعا میں فرمایا: بارِ الہٰا! ہمیں فرمانبردار ابروں سے سیراب کر، نہ اُن ابروں سے جو سرکش اور منہ زور ہوں
سید رضی کہتے ہیں کہ یہ کلام عجیب و غریب فصاحت پر مشتمل ہے۔ اس طرح کہ امیر المومنین علیہ السلام نے کڑک، چمک، ہوا اور بجلی والے بادلوں کو اُن اونٹوں سے تشبیہ دی ہے کہ جو اپنی منہ زوری سے زمین پر پیر مار کر پالان پھینک دیتے ہوں اور اپنے سواروں کو گرا دیتے ہوں۔ اور ان خوفناک چیزوں سے خالی ابر کو ان اونٹنیوں سے تشبیہ دی ہے جو دوہنے میں مطیع ہوں اور سواری کرنے میں سوار کی مرضی کے مطابق چلیں
بنیان مرصوص اسلامی فکری مرکز