بنیان مرصوص  اسلامی فکری مرکز
بنیان مرصوص  اسلامی فکری مرکز

بنیان مرصوص اسلامی فکری مرکز

تابعدار حسین

اسلام میں تجارت کی اہمیت


تابعدار حسین هانی


ایک شخص امام صادق علیہ السلام کی خدمت آتے ہیں اور بیان کرتے ہیں کہ میرا تمام سرمایا میرے ہاتھ سے چلا گیا اب میں کیا کروں امام علیه السلام فرماتے

ہیں (باقی ماجره خود کلپ میں سماعت فرمائیں)




بنیان مرصوص اسلامی فکری مرکز

عالم کے پہلے مظلوم اور راز مظلومیت امیرالمومنینؑ


21 رمضان المبارک  کی مجلس


خطابت : تابعدار حسین

جوخود  کو  شیعه علی ؑ  کہتا ہے اُس  کا یہ فریضه ہے که و شخصیت امیرالمومنینؑ کی  معرفت حاصل کرئے  ، اس امر میں غفلت نہ کرے کیونکہ اس امر میں غفلت یعنی درحقیقت  فیض معرفت و آگاهی سے محرومیت  هے   ، جس کے مقام کے آگے اجنبی بھی سر تسلیم ہیں مثلا فخر رازی کو دیکھیں جو که ایک دانشمند اہل سنت  ہیں اور امام مشککین ہیں ، سورہ فاتحہ کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ بلآخر ہیں معلوم نہیں ہوا کہ رسول اللهﷺ نماز میں بسم الله الرحمن کو بلند آواز سے پڑھتے تھے یا آہسته ؟ اس  مسئلہ میں ہم علی ابن ابی طالب ؑ سے تمسک کرتے ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا العلی مع الحق و الحق مع العلی  ،  لہذا نماز میں بسم الله الرحمن الرحیم کو نماز میں بلند آواز سے پڑھنا چاہیے ۔

جب شیعه کا معنی  تابع و پیروں علیؑ هے تو پیروی معرفت میں گروی ہے  ، جب جس کی پیروی کرنی ہے اگر اس کی معرفت نہ ہو تو کیسے انکی پیروی کی جا سکتی ہے پیروی اس وقت متحقق ہوتی ہے جب معرفت ہو ۔

اور یہ بھی مسلمات میں  سے ہے که معرفت  ذات امیر المومنینؑ  ، امام  معصوم ؑ کے علاوه کسی  کے بس کی بات نهیں  ،لہذا  ہم امام معصوم سے تمسک کریں گے تاکه اپنی وسع و طاقت کے مطابق معرفت امام المتقین کو حاصل کریں  ۔

جب امام ھادی ؑ کو معتصم عباسی نے مدینہ سے سامرہ کی طرف بلایا تو امامؑ  جب نجف اشرف  میں پہنچے تو قبر مطھر امیر المومینؑ پر ایک زیارت نامہ انشاء کیا جوکه زیارت غدیریہ کے نام پر مشہور ہےجس میں شخصیت امیرالمومنینؑ کے چند پہلوں کو بیان فرمایا ہے ۔

امام ھادیؑ فرماتے ہیں السَّلامُ عَلَیْکَ یَا وَلِیَّ اللّٰهِ، أَنْتَ أَوَّلُ مَظْلُومٍ، وَأَوَّلُ مَنْ غُصِبَ حَقُّهُ، صَبَرْتَ وَاحْتَسَبْتَ حَتَّىٰ أَتَاکَ الْیَقِینُ، فَأَشْهَدُ أَنَّکَ لَقِیتَ اللّٰهَ وَأَنْتَ شَهِیدٌ

امام ھادیؑ فرماتے ہیں میرا سلام ہو آپ پر ائے ولی خدا ، آپ پہلے مظلوم ہیں ، اور پہلے وه جن کا حق غصب کیا گیا آپ نے صبر کیا اور اس کا احتساب خدا پر چھوڑ دیا یہاں تک کہ آپ شھید ہوگے اور میں گواھی دیتا ہوں کہ آپ حالت شھادت میں خدا سے ملاقات کی ہے ۔

یہاں پر امامؑ سلام نے امیر المومنینؑ کی پہلی وصف اولین مظلوم بیان کیا ہے ، واقعا عالم میں مولا امیرؑ پہلے مظلوم ہیں جنہوں نے اپنی مظلومیت کو بہت سخت تعبیرات کے ساتھ بیان ہے ۔

آپ ذره مظلومیت امیرالمومنینؑ پر توجہ فرمائیں ، ایک دن آپؑ گھر تشریف لاتے ہیں تو بنت رسول الله  رو رہی ہوتی ہیں آپؑ پوچھتے ہیں بنت رسول الله کیا ہوا ہے کہ آپ علیؑ کے ہوتے رو رہی ہیں تو آپ فرماتی ہیں مولا میں نے سنا ہے مدینہ کے لوگ آپ کو سلام نہیں کرتے ، امامؑ نے فرمایا ماجرہ فقط یہاں تک نہیں ہے بلکہ میں سلام کرتا ہو مدینہ کے لوگ مجھے سلام کا جواب نہیں دیتے ، یہ ہے مظلومیت امیرالمومنینؑ جو اسدالله ہیں جو یعسوب الدین ہیں جو مومن و فاسق کے درمیان فرق کرنے کا معیار ہیں اور رحلت رسول اللهﷺ کے بعد اس کو سلام کا جواب نہیں دیتے یہ ہے مظلومیت امیرالمومنینؑ ، ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اس مظلومیت کے پیچھے کیا راز ہے اور کیا علل و اسباب ہیں کہ رحلت رسول الله ﷺ کے فورا بعد اتنے مظالم امیرالمومنینؑ پر ڈھاے گیے ، یہاں پر ہم اُن علل و اسباب میں سے فقط چند کو ذکر کریں گے ۔

1 ۔ تنھائی 

پہلی علت یہ بیان ہوئی ہے کہ امیرالمونینؑ کو رحلت رسول الله ﷺ کے فورا بعد اُمت نے تنہا چھوڑ دیا امیرالمومنینؑ کے ساتھ فقط اپنے اہل بیت ره گئے اس کو خود امیرالمومنینؑ نے نہج البلاغہ کے اندر بیان کیا ہے ایک اور حدیث میں تنہائی امیرالمومنینؑ کو اس طرح سے بیان کیا گیا ہے 

عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ عَلَیْهِ اَلسَّلاَمُ قَالَاِرْتَدَّ اَلنَّاسُ بَعْدَ اَلنَّبِیِّ إِلاَّ ثَلاَثَةَ نَفَرٍاَلْمِقْدَادُ بْنُ اَلْأَسْوَدِ وَ أَبُو ذَرٍّ اَلْغِفَارِیُّ وَ سَلْمَانُ اَلْفَارِسِیُّ ، ثُمَّ إِنَّ اَلنَّاسَ عَرَفُوا وَ لَحِقُوا بَعْدُ 

رسول الله ﷺ کے بعد لوگ مرتد ہوگے مگر تین نفر مقداد ، ابوذر و سلمان فارسی ، البتہ بعض روایات میں چار نفر و بعض میں پانچ نفر بھی ذکر ہیں جو چیز مسلم ہے دس نفر سے کم تھے ، اور یہاں پر مرتد سے مراد مرتد فقہی نہیں ہے بلکہ یہاں پر ایک خاص معنی ہے اور یہ ہے لوگ ولایت امیرالمومنینؑ سے منہ موڑ لیا اور سقیفہ کے پچھے چل پڑے اور ولایت علیؑ کہ جس اعلان رسول الله ﷺ نے خم غدیر کے مقام پر کیا لوگوں نے اس سے منہ موڑ لیا اور علیؑ کو تنہا چھوڑ دیا ۔

2 ۔ عدالت 

امیرالمومنینؑ کو خلافت ظاھری ملی تو امامؑ  نے اپنا طریقہ حکومت میں عدالت کو مرکزیت دی اور اسکو اس طرح سے بیان فرمایا جو باعث مظللومیت امیرالمومنینؑ بنی ،

فَاَنتُم عِبادُ اللّهِ وَ المالُ مالُ اللّهِ یُقَسِّمُ بَینَهُم بِالسَّویه لا فَضلَ فیه لِأحَدٍ عَلی أحَد وَ لِلمُّتَّقینَ عِند اللّهِ غَدا أحسَنُ الجَزآءَ و اَفضَلُ الثّواب ، لَم یَجعَلِ اللّه ُ الدُّنیا للمُتَّقینَ أجرا و لا ثَوابا و ما عِندَ اللّه ِ خَیرٌ للأبرارِ . 

آپ بندگان خدا ہیں اور بیت المال الله کا مال ہے اور میں اس کو آپ کے درمیان مساوی تقسیم کروں گا اور اس میں کسی کو کسی دوسرے پر فضیلت نہیں ہے اور متقین کےلیے آخرت میں الله کے ہاں ان کےلیے بہتریں جزاء اور بافضیلت ثواب ہے ،اللہ نے متقین کے لیے دنیا میں نہ کوئی جزا قرار دی ہے اور نہ ثواب اور وه جو الله کے پاس آخرت میں ہے وہی بہتر و خیر ہے ۔

جب تقریر امیرالمومنینؑ نے کی تو بعضوں کو معلوم ہو گیا کہ پہلے کی طرح اب ہم بیت المال سے مال نہیں بٹور سکیں گے لہذا مخالفت پر اتر آئے اور حتیٰ کہ جنگیں لڑنے تک گریز نہیں کیا ، دوسرے دن طلحة و زبیر آئے اور یہ کہا : ان طلحة و الزبیر أتیا علیا ً بعد ما بایعاه بأیام فقالا:

یا امیرالمؤمنین قد عرفت شدة مؤنة المدینه و کثره عیالنا و ان عطاءنا لایسعنا ، ہمیں جو بیت المال سے حصہ ملتا ہے وه کم ہے اور ہمارے عیال بھی زیاده ہیں اور اس سے ہمارا گزارا نہیں ہوتا لہذا ہمیں بیت المال سے زیاده حصہ دیں تو امیرالمومنینؑ نے فرمایا :  فقال: اطلبا الی الناس فان اجمعوا علی ان یعطوکما شیئا ً من حقوقهم فعلت ، آپ جاکرلوگوں سے مانگیں اور اُن سے کہیں کہ ہمیں اپنا حق دے دیں اگر وه دے دیں تو مجھے کوئی مشکل نہیں ہے ، تو پھر ان دونوں نے کہا :قالا: لمن نکن لنطلب ذلک الی الناس و لم یکونوا یفعلوا لوطلبنا الیهم! ، یہ ہم نہیں کہہ سکتے اور اگر ہم کہیں بھی سہی تو لوگ نہیں مانے گے تو اس وقت امیرالمومنینؑ نے فرمایا : قال: فأنا و الله احری ان لاافعل فانصرفا عنه ، خدا کی قسم میں سزاوار تر ہوں کے یہ کام نہ کروں ، جب آپ خود کہہ رہے ہیں کہ لوگ نہیں مانیں گے تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ لوگوں کا مال آپ لوگوں کو دے دے ، پھر اس قاطعیت و عدالت کے نتیجہ میں جنگ جمل برپا ہوئی ہے ۔

یہ ہیں وه علل و اسباب کہ جس کی وجہ امیرالمومنینؑ اتنے مظلوم ہوے کہ اول مظلوم عالم کہلاے ، اسی طرح اس علت کا ادامہ اور باقی علل ان شاء الله آنے والے جلسات کے اندر زیر بحث لائیں گے ۔


رحمت الہی از نظر قرآن کریم


برنامہ ماه مبارک رمضان





خطابت : تابعدار حسین

انہوں نے بیان فرمایا کہ ماه مبارک رمضان فوق العاده اہمیت کا حامل ہے ،یہ وہ مہینہ ہے جس میں خدا وند کریم اپنے بندوں پر رحمت کے دروازه کھول  دیتا ہے اسی وجہ سے اہل سلوک اس مہینہ کو اپنے لیے سال کا پہلا مہینہ قرار دیتے ہیں ۔

خدا وند کریم نے اس مہینہ کے پہلے عشرہ کو اپنے بندوں کے لیے رحمت قرار دیا ہے تاکہ میرا بنده جب میری طرف حرکت کرے تو سختی میں نہ پڑے بلکہ رحمت خدا اُس کے شامل حال ہو ، رسول اکرم ﷺ فرماتے ہیں هو شهر اوله رحمة و اوسطه مغفرة و اخره عتق من النار؛

           بحار الانوار، ج 93، ص 342
          انہوں نے مزید بیان کیا کہ اگر آپ توجہ کریں تو اس نتیجہ پر پهنچے گے کہ خدا و ند کریم  اور انسان کے درمیان خوبصورت ترین رابطہ اگر قابل تصور ہے تو و ه رابطہ فقط محبت و رحمت کا رابطہ ہے   باوجود اِس کے کہ خدا وندکریم قدرت ، قهریت وغیره کے زریعہ بھی انسان  کے ساتھ رابطه قائم کرسکتا تھا لیکن ایسانہیں کیا بلکہ انسان کے ساتھ رحمت کا رابطہ قائم کیا ہے لہذا اِس طرف سےبھی اسی رابط کی توقع ہے ۔
مزید بیان فرمایا کہ ذره افعال خدا کی طرف توجہ کریں خدا وند کریم نے اپنے افعال جو انسان کے متعلق ہیں انکا آغاز اپنی رحمت سے کیا ہے دین کا آغاز صفتات رحمن و رحیم سے کیا اور قرآن کریم کے آغاز میں اور ہر سورہ کے آغاز میں بیان فرمایا بسم الله الرحمن الرحیم ، آئے انسان قرآن کریم کا آغاز رحمن و رحیم کے نام سے کرو بلکہ اپنے ہر فعل کا آغاز رحمت رحمانیہ ورحیمیہ خدا وند کریم سے کرو۔
       اسی طرح تعلیم قرآن کا آغاز بھی اپنی رحمت سے کیا اور فرمایا الرحمن علم القرآن ، یہاں پربھی خدا وند کریم نے اپنا تعارف معلم قرآن ہونے سے کرایا یہاں پر یہ نہیں فرمایا کہ علیم علم القرآن بلکہ فرمایا الرحمن علم القرآن ،صفت رحمانیت کے ذریعے اپنا تعارف کرایا ، اس آیت کے آگے توجہ فرمائیں ، رحمن جو معلم قرآن ہے اور اس نے قرآن کی تعلیم دی ، تعلیم قرآن کے نتیجہ میں جو چیز بنی وه انسان ہے ، الرحمن علم القرآن خلق الانسان ، لہذا قرآن کریم کا آغاز رحمت سے ، تعلیم قرآن کا آغاز بھی رحمت سے ، خود کو بھی معلم رحمن معرفی کرایا اور اسی طرح خلقت انسان کی ابتداء بھی رحمت خدا سے ، اور اسی طرح خدا وند کریم نے ماه مبارک رمضان کے پہلے عشره کو انسانوں کےلیے رحمت قرار دیا۔
        یہاں پرایک اور بحث مطرح ہوتی ہے کہ رحمت خدا (قرآن کریم کی پہلی آیت کی روشنی میں) کی دو قسمیں ہیں ایک رحمت رحمانیہ و رحمت رحیمیہ
       1 ۔ رحمت رحمانیہ ؛ وه رحمت ہے جو تمام موجودات کو شامل ہے ہر وه چیز جس نے لباس شئیت پہنا ہوا ہے وہ جمادات میں سے ہو یا نباتات میں سے سے ہو یا حیوانات میں سے ، انسان مومن ہویا فاسق ، مسلمان ہو یا کافر رحمت رحمانیہ خدا سب کے شامل حال ہے جسکو مولا امیر (ع) دعا کمیل میں اس طرح سے بیان کیا ہے ؛الھم انی اسئلک برحمتک التی وسعت کلَ شی ، اس رحمت رحمانیہ خدا کو  درک کرنے کے لیے پهلے مظهر رحمت خدا کی زندگی پر ذرہ نظر دوڑائیں جس کو خدا وند کریم نے عالمین کے لیے رحمت قرار دیا ہے: وما ارسلنک الا رحمة للعالمین یہاں پر فقط ایک مثال بیان کریں گے وہ یہ کہ جن لوگوں نے جنگ اُحد میں رسول اکرم کے چچا حضرت حمزہ سید الشھداء کا کلیجہ نکال کرچپایا تھا فتح مکہ کے دن انہی لوگوں کو رسول الله ﷺ نے فرمایا اذھبوا انتم الطلقا ، جاؤ آپ لوگ آزاد ہو ، الیوم یوم المرحمه ، آج کا دن رحمت کا دن ہے ۔
            2 رحمت رحیمیہ ؛ یہ رحمت کی وہ قسم کہ یہ سب کو شامل نہیں ہے بلکہ یہ فقط مومنین کےلے ہے اسکی شرط یہ ہے کہ انسان اوامر الہی کے سامنے خاضع و خاشع ہو اور اس رحمت تک پہنچنے کا راستہ ہوا نفس کے ساتھ مقابلہ و مبارزہ ہے الذین جاهدوا فینا لنھدینهم سبلنا ، اگر انسان اومرالہی کے سامنے خاشع و خاضع ہو اور اپنے نفس کے ساتھ حالت جنگ میں ہو تو وہ رحمت رحیمیہ تک پہنچ سکتا ہے ۔
           یہاں سے ہمیں ایک تربیتی نکتہ ملتا ہے کہ جس طرح خدا وندکریم نے اپنی رحمت کو نظم دیا ہے اسی طرح انسان بھی اپنے امور کو نظم دے مثلا اگر ایک انسان والد ہے تو وه اپنے بچوں کے درمیان بعض ضروریات زندگی فراہم کرنے میں تبعیض کا قائل نہ مثلا غذا ، لباس وغیره اور بعض اشیاء کو مشروط کرئے کہ جو سب زیادہ متقی ہوگا اُن کے لیے بعض اضافی اشیاء میسر ہوں گی ۔
    اس بحث سے ایک بہت ہی مہم پیغام جو ہمیں ملتا ہے ، انسان کو کسی بھی صورت میں مایوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ سخت ترین ایام میں بھی رحمت خدا سے تمسک کرنا چاہیے ۔ 
وصل الله علیه و آلہ وسلم 

آنلاین کلاسز میں شرکت کرنے کے لیےرجسٹریش فارم




رجسٹریشن فارم کو حاصل کرنے کے لیے یہاں پر کلیک کریں


بنیان مرصوص اسلامی فکری مرکز

قضایه تحلیلی و تالیفی از نظر کانت و مقایسه آنها با حمل اولی و شائع در فلسفه اسلامی


چکیده

در این مقاله ، ابتدا مقدمتا سیر تاریخی اجمالی تقسیم قاضایا تحلیلی و تالیفی (ترکیبی) مطرح شده است ، و اقسام و احکام قاضایا از نگاه کانت و مقایسه آنها با حمل اولی و شایع در فلسفه اسلامی و در آخر یک نتیجه گیری مختصر انجام شده است ۔


دریافت مقاله کامل لینک زیر را کلک نمایید

https://s25.picofile.com/file/8454622376/.pdf.html

سیر زمان و مکان از فلاسفه یونان تا ملا صدرا

بحث زمان و مکان از جمله مباحث ریشه دار و سنتی در تاریخ فلسفه است که در طول تاریخ اندیشه بشر، ذهن فلاسفه را از دوران یونان باستان به خود مشغول کرده چنان که آراء و اقوال بسیاری در این باب ابراز کرده اند. فلاسفه اسلامی نیز به سهم خود و به تأثیر از فیلسوفان یونان باستان به ویژه ارسطو، نظراتی در این باره ارائه کرده اند. ارسطو بحث از مکان را در کتاب طبیعیاتو در نسبت با حرکت طبیعی، خلاء و زمان مطرح کرده است ، ارسطو معتقد است وجود حرکت، دلیل بروجود زمان است و اگر ما حرکت را ادراک نکنیم، زمان را ادراک نخواهیم کرد و هرچند زمان، عین حرکت نیست، ولی از حرکت نیز جدا نیست، یعنی بدون حرکت، زمان نخواهد بود برخلاف افلاطون مفهومی طبیعی از مکان ارائه میکند. ارسطوتحلیل افلاطون از زمان و مکان را نمی پذیرد و میکوشد بنا به ساختار جسم، زمان و مکان را تحلیل می کند ، او مکان را سطح مماس جسم حاوی و محوی میداند و در یک امر عرضی بہ آن بھاء می دھد و زمان را مقدارحرکت می داند، ابن سینا درصدد اثبات این نظر است که مکان هیولا، صورت بعد یا خلاء نیست، بنابراین نهایت سطح یاد شده است. او برای تثبیت این مفهوم، با انواع دلایل به رد خلاء اقدام می کند. از نظر ابن سینا انسان با التفات به وجدان، اندیشه و عقل درمی یابد که و زمان امری بدیهی و واقعی است نه موهوم، و براهین اقامه شده بر وجود زمان، صرفاً تنبیه و آگاهی بر وجود زمان هستند، وی زمان را واقعیت عرضی  نه جوهری  می داند که وابسته به موضوع حرکت و حرکت است، وی عامل اندازه گیری تجدد دائمی حرکت را زمان می نامد ، سهروردی گرچه در هستی شناسی، انسان شناسی و معرفت شناسی خود بیشتر افلاطونی است، ولی از آنجا که می کوشد درک تمثیلی از طبیعت را کنار زند و تحلیل عقلانی را جایگزین آن سازد، در تحلیل زمان و مکان جانب ارسطو را میگیرد و همانند وی مکان را رابطه سطوح اجسام و زمان را مقدار حرکت میداند ۔۔۔۔۔۔


برای دریافت مقاله ای کامل لینک زیر را کلک نمایید

https://s25.picofile.com/file/8454621400/.pdf.html


سیر و سیاحت


مسجد مقدس جمکران